درِ نبیؐ پہ ہَے شاداب موسموں کا ہجوم- دبستان نو (2016)
مجھے یقیں ہَے کہ اب کے برس بھی طیبہ میں
کھُلا ہَے بابِ عطا و کرم غلاموں پر
طلب کے پھول کِھلے ہیں ہمارے دامن میں
جمالِ گنبدِ خضرا کی اک جھلک کے لئے
ازل سے کالی گھٹائیں امڈتی رہتی ہیں
مرے حضورؐ کی گلیوں میں گھومنے کی دعا
ہوئی قبول، مقدّر کی لو بلائیں پھر
ہوا نے جام اٹھائے ہیں آبِ رحمت کے
درود پڑھتے ہوئے آ رہے ہیں شمس و قمر
چراغِ عشق جلائے ہیں بام و در پہ ریاضؔ
درِ نبیؐ پہ لگا خوشبوؤں کا میلہ ہَے
درِ نبیؐ پہ ہَے شاداب موسموں کا ہجوم
بدن کے زخم مدینے میں جا کے سیتے ہیں
ثنائے مرسلِ آخرؐ کا جام پیتے ہیں