چلو اِس شام بھی اشکوں کی ہم برسات کرتے ہیں- دبستان نو (2016)
چلو اِس شام بھی مدحت کے کرتے ہیں دیے روشن
چلو اِس شام بھی اسمِ گرامی لب پہ لکھتے ہیں
چلو اِس شام بھی اشکوں کی ہم برسات کرتے ہیں
چلو اِس شام بھی شہرِ نبیؐ سے ہو کے آتے ہیں
ادب سے پھر سنہری جالیوں کو چوم لیتے ہیں
نگاہوں میں چھپا لیتے ہیں ذرّے خاکِ انور کے
چلو اِس شام بھی ہم گنبدِ خضرا کی چھاؤں میں
بہارِ صبحِ دل کو خوشبوؤں کا لمس دیتے ہیں
چلو اِس شام بھی آنکھیں سجا کر اپنے ہاتھوں پر
تصُّور میں مدینے کے گلی کوچوں میں پھرتے ہیں
در و دیوار پر رکھتے ہیں اپنی سب تمنّائیں
تلاشِ نقشِ پا میں ہر قدم پلکیں بچھاتے ہیں
چلو اِس شام بھی اُس آستاں پر ہونٹ رکھتے ہیں
جہاں سے پھوٹتے ہیں آبِ رحمت کے کئی چشمے
جہاں سے بھیک ملتی ہَے کرم کے سبز سکوّں کی
جہاں پر جگنوؤں کے قافلے ترتیب پاتے ہیں
جہاں پر آگہی روزِ ازل سے سر جھکاتی ہَے
چلو اِس شام بھی شہرِ پیمبرؐ کی ہواؤں سے
سحر تک ہمکلامی کا شرف کرتے ہیں ہم حاصل
چلو اِس شام بھی ملکِ سخن کے مرغزاروں میں
قلم کے آب خوروں پر خنک بوندیں رقم کر دیں
فصیلِ آرزو پر چشمِ تر سے روشنی لکھ دیں
چلو اِس شام بھی روحِ ادب سرکارؐ کے در پر
دعاؤں کے ہجومِ شوق میں آنسو کرے روشن
اسی در سے عطا ہو گی ستاروں کو نئی مشعل
اسی در سے مہ و انجم تواتر سے گزرتے ہیں
فرشتے مشعلیں لے کر درودوں کی اترتے ہیں