جانتا ہے تُو مری آنکھیں ہیں کس کی منتظر؟- دبستان نو (2016)

اے خدائے برگزیدہ! ہر خطا سے درگذر
ہر غلط کاری پہ ہوں حرفِ پشیماں کی طرح
ہر گنہ پر دل سے نادم ہوں، خدائے آسماں!
منحرف چہرہ چُرا لے ظلمتِ شامِ غضب
میرے ہر آنسو میں میری داستاں تحریر ہے
میرا ہر آنسو کہانی ہے شبِ بے نور کی
میرا ہر آنسو ہے میری التجاؤں کا جواب
مَیں ندامت کے پسینے میں رہوں بھیگا ہوا
میری ہر لغزش کی سنگینی نظر انداز ہو
میرے چہرے سے مٹے نام و نشانِ اِنحراف
اے خدائے برگزیدہ ہر خطا سے درگذر
مہرباں ہے اے خدا تُو اپنی ہر مخلوق پر
مغفرت کی چادریں تقسیم کرتی ہے ہوا
اپنے بندوں کو ہمیشہ حوصلہ دیتا ہے تُو
بے بسی کی ساری دیواریں گرا دیتا ہے تُو
ہر ہتھیلی پر زرِ رنگِ حنا دیتا ہے تُو
اپنے بندے کو کبھی غارِ حرا دیتا ہے تو
دخترِ نادار کے سر پر ردا دیتا ہے تُو
رحم فرماتا ہے ہر مخلوق کے احوال پر
رحمتیں تیری برستیں ہیں در و دیوار پر
سرکشی سے باز رکھتا ہے تُو ہر انسان کو
امن کی بادِ بہاری ہر گلستاں میں چلے
عافیت کی سرخیاں ہوں ہر کسی اخبار میں
ہر صحافی کو تحفظ کا ملے قَصْرِ دعا
سچ کے راہی کو ملے شادابیٔ ارضِ وطن
محتسب کا ہو قلمداں روشنی کا ہمسفر
ہر جزیرے پر گھنے پیڑوں کا ہو سایہ مدام
بادشاہوں کا بھی تُو ہے بادشہ ربِّ کریم!
پادشاہی ہے تری سارے زمانوں پر محیط
پادشاہی ماورا ہے تیری ماہ و سال سے
گردشِ حالات تیرے حکم کی ہے منتظر
اے خدائے برگزیدہ ہر خطا سے درگذر
پاک ہے تُو پاک ہے تُو پاک ہے، ربِّ قدیم!
میرے اندر یہ سیاہی ہے شبِ اوہام کی
میرے اندر کھڑکیاں یا رب! اجالوں کی کُھلیں
آدمی اندر کا سیدھی راہ پر چلتا رہے
رکھ سلامت میری بینائی کا روشن آفتاب
دے شعورِ بندگی کا کیف مجھ کو لازوال
تو ہی میری کشتیوں کا ہے نگہباں اے خدا!
ذات تیری غالب و جّبار ہے قہّار ہے
اے خدائے برگزیدہ ہر خطا سے در گذر

ہر تکبر صرف زیبا ہے تری ہی ذات کو
تیرے دروازے کُھلے رہتے ہیں ہر مخلوق پر
آب و گِل تیرے اشارے کے ازل سے منتظر
پتھروں کو بولنے کا حکم بھی دیتا ہے تُو
ہر طرف ارض و سما میں ہیں ترے نقش و نگار
پردہ پوشی تیرے اوصافِ جمیلہ کا چراغ
رزق کی تقسیم پر مامور ہے قدرت تری
مشکلیں آسان کر دیتا ہے تُو انسان کی
ہر قدم، آسانیوں کے مرحلے دیتا ہے تُو
ذات تیری ہر کسی کی سوچ سے ہے ماورا
بس ترے قبضے ہی میں ہے تخت و تاجِ زندگی
رزق میں دیتا ہے تُو مجھ کو فراوانی سدا
تُو ہی دیتا ہے بلندی کے تصوُّر کو بقا
تُو جسے چاہے اُسے دیتا ہے عزت کے عَلَم
تُو جسے چاہے اُسے دیتا ہے ذلت کا غبار
ایک اک لمحہ بصارت، ایک اک لمحہ بصیر
یاخدا! تیری سماعت بے مثال و بے نظیر
میں ترا نا چیز بندہ، تیرے در کا ہوں فقیر
میرے کشکولِ دعا میں بھی زرِ خیرِ کثیر
تا ابد زندہ و پائندہ رہے روشن ضمیر
یاخدا! مجھ کو بنا اپنے پیمبرؐ کا سفیر
تا ابد اُنؐ کی محبت کا رہے شاعر اسیر
گو سرِ بازارِ مدحت ایک ذرّہ ہے حقیر
اے خدائے برگزیدہ ہر خطا سے در گذر

حاکمِ مطلق تری ہی ذات ہے ربِّ جہاں!
کس طرح تیری خدائی میں کوئی رخنہ پڑے
عَدل کی تفسیر ہے تیرا کلامِ بے مثال
(ایک اک لمحہ جلاتا ہوں اطاعت کے چراغ)
بردباری کا سبق دیتا ہے تُو انسان کو
تیری عظمت کا تصّور کیا کریں ارض و سما
ہر تصّور سے رہی ہے تیری ہستی ماورا
اپنی ہستی کے ہر اک منکر کا بھی تُو ہے خدا
تُو عظیم و تُو حفیظ و تُو خبیر و تُو علیم
تُو حسیب و تُو جلیل و تُو رحیم و تُو کریم
وسعتِ افلاک میں ہے ذات تیری ہی قدیم
علم و حکمت اور دانائی خزانے ہیں ترے
تجھ سے پوشیدہ نہیں ارض و سما کی وسعتیں
تُو بڑی طاقت کا مالک ہے خدائے روز و شب
تیری قوت کا کوئی اندازہ کر سکتا نہیں
(تیری حکمت تیرے انسانوں میں بٹتی ہی رہے)
تیرے در پر ہی پڑے رہنا مری معراج ہے
اے خدائے برگزیدہ ہر خطا سے در گذر

اے خدا! بس لائقِ توصیف ہے تیری ہی ذات
ذرّہ ذرّہ صرف تیرے حکم کا پابند ہے
زندگی اور موت پر قادر ہے تیری ذات ہی
بے نیازی صرف سجتی ہے تری ہی ذات پر
اپنے سب اوصاف میں یکتا بھی تُو تنہا بھی تُو
منکشف مجھ پر بھی کر میری حیاتِ مختصر
کب سے زرتابِ غلامی میں ہوں مَیں ڈوبا ہوا
جانتا ہے تُو مری کلکِ ثنا لکھتی ہے کیا؟
جانتا ہے تُو میں کس کے ذکر سے سرشار ہوں؟
جانتا ہے تُو مری سب دھڑکنوں میں کون ہے؟
جانتا ہے تُو ترے محبوبؐ کا شاعر ہوں مَیں
(جانتا ہے تُو یقینا اے خدائے مہرباں
مَیں نے ہر لمحہ تصوُّر میں گذارا ہے کہاں)
کون میرے حجلۂ افکار میں ہے جلوہ گر؟
کون میرے قریۂ گفتار کی ہے آبرو؟
کس کے نقشِ پا کی متلاشی ہے یہ چشمِ ادب؟
جانتا ہے تُو مری آنکھیں ہیں کس کی منتظر؟
التجا ہے قادرِ مطلق! ترے دربار میں
تیرے محبوبِؐ مکرم کی ثنا لکھتا رہوں

لطف فرما میرے حالِ زار پر میرے خدا!
چاند اترے جسم کی دیوار پر میرے خدا!