جب مقدّر کا چمکے ستارا- دبستان نو (2016)
اے مدینے کے اچھے مسافر!
جب مقدّر کا چمکے ستارا
جب صبا تھام کر تیری انگلی
تجھ کو سرکارؐ کے در پہ لائے
جب ترے اشک ہاتھوں میں اپنے
پھول مدحت کے لاکھوں سجائیں
خوشبوئیں بھی شریکِ ثنا ہوں
تتلیاں ہر طرف پَر کُشا ہوں
اور جگنو بھی حرفِ دعا ہوں
اُس گھڑی خدمتِ مصطفیٰؐ میں
پیش کر کے درودوں کی ڈالی
اور اپنے سلاموں کے گجرے
عرض کرنا، حضورؐ ایک شاعر
ہاں وہی آپؐ کا جو ہَے شاعر
شہرِ اقبال میں جو ہَے رہتا
نعت کے سرمدی رتجگوں میں
اُس کے شام و سحر ہیں گذرتے
یا نبیؐ، اِن دنوں رات دن وہ
چپکے چپکے ہَے آنسو بہاتا
اس کے اپنے ہوئے ہیں پرائے
آپؐ کے نام کا وہ وسیلہ
پیش کرتا ہَے بارِ الہ میں
آج بھی یا نبیؐ دشمنوں نے
اپنے اندر کی ساری غلاظت
اس کے کردار پر ہَے اُچھالی
آج بھی جبر کی ساعتوں میں
رزق پر اُس کے شب خوں پڑا ہے
بیبیوں کے سروں کی ردائیں
چھیننے کی بھی سازش ہوئی ہے
آج بھی اس کی سادہ دلی پر
طنز کے قہقہے پڑ رہے ہیں
آج بھی اس کو اربابِ شر سب
اپنا قیدی بنائے ہوئے ہیں
آج بھی اُسکے گھر کی فضا میں
زہر گھولا ہَے اہلِ ریا نے
آپؐ کا یا نبی جیؐ وہ شاعر
آج بھی کہہ رہا تھا ہوا سے
میرے آقاؐ سے جا کر یہ کہنا
رو کے فریاد کرنا، نبی جیؐ!
اپنی کملی میں مجھ کو چھپا لیں
اِن لٹیروں سے آ کر بچا لیں