گھر کا گھر ، گھر کی چوکھٹ پہ ہَے یا نبیؐ- دبستان نو (2016)
آج بھی مشعلِ نعتِ خیر ا لبشرؐ
جل رہی ہَے مرے گھر کے دالان میں
آج بھی چشمِ تر رقص میں ہے مری
روشنی عالمِ وَجد میں ہَے ابھی
بام و در کیف و مستی میں ڈوبے ہوئے
کہہ رہی ہیں ہوائیں بھی صلِّ علیٰ
جگنوؤں نے اٹھائے ہوئے ہیں دیے
تتلیوں کے ہیں لب پر دعائیں رقم
رنگ بکھرے ہوئے ان فضاؤں میں ہیں
شہرِ طیبہ سے ٹھنڈی ہوا چل پڑی
میرے بچیّ وضو کر کے سجدے میں ہیں
میرے دل میں چراغِ حرا جل اٹھے
ساعتوں کے ہَے لب پر درودِ نبیؐ
کاغذی پیرہن سب اندھیروں کے ہیں
جذب و مستی کے عالم میں لکھّوں ثنا
یہ قلم تہنیت کی فضاؤں میں ہَے
کب سے پھولوں کے جھرمٹ میں ہَے سرخرو
کب سے دامن میں ہیں کہکشاں کے قدم
کب سے مہکی ہوئی ہَے فضائے ادب
آپؐ کی مدحتوں سے ورق سج گیا
گھر کا گھر یا نبیؐ منتظر آپؐ کا
گھر کا گھر میرا حرفِ ادب بن گیا
گھر کا گھر ہَے درودوں سے مہکا ہوا
گھر کا گھر، گھر کی چوکھٹ پہ ہَے یا نبیؐ
میری سرکارؐ کا نام ہَے روشنی
نقشِ پا آپؐ کے ڈھونڈتے ڈھونڈتے
مکتبِ علم و فن میں چلا جاؤں گا
اب خلاؤں کی وسعت میں ڈھونڈو مجھے
میری انگلی پکڑ کر چلے چاندنی
ساتھ میرے چلیں حُسن کے قافلے
خوشبوئیں بھی شریکِ سفر ہوں مرے
مَیں اندھیروں سے خائف رہا ہی نہیں
ارتقاء کے سفر پر رہے کارواں
کب تلک ذکر زخموں کا کرتا پھروں
کب تلک تذکرہ غم کی برسات کا
کب تلک بین کرتا رہَے گا قلم
کب تلک سر پہ مظلومیت کا کفن
یا نبیؐ ہوں عطا پھر نئے حوصلے
ہر قدم پر نئے دن کی شبنم ملے
عزمِ نو کی جلیں مشعلیں ہر طرف
نیند سے جاگ اٹھّیں قبائل مرے
عِلم کی روشنی ہر دریچے میں ہو
چاند تاروں پہ ڈالیں کمندیں جواں
دفن فرسودگی کو کریں اہلِ فن
زخم خوردہ جبینوں پہ اترے سحر
فکرِ اقبال سینوں میں تابندہ ہو
یا نبیؐ، اپنی اُمّت پہ نظرِ کرم
اس کے دامن میں امید کی روشنی
اس کو تسخیرِ ارض و سما کا سبق
دیجئے سیّدی مرشدی یا نبیؐ
ہر رکاوٹ کو ٹھوکر لگاتی چلے
ہر بلندی پہ اس کا نشیمن بنے
خیر کے راستوں پر رہے گامزن
آبِ زم زم سے تر اپنے لب کیجئے
اُنؐ سے دامانِ رحمت طلب کیجئے