حضورؐ کشتیوں کے بادباں نہیں کُھلتے- دبستان نو (2016)

حضورؐ، اشک زمینِ وطن کے لایا ہوں
حضورؐ، کرب کی چادر میں ہَے فضا گھر کی
حضورؐ، سسکیاں لپٹی ہوئی ہیں دامن سے
حضورؐ، ہچکیاں رک رک کے لے رہا ہَے قلم
حضورؐ، خوف کے بادل افق افق پر ہیں
حضورؐ، شب کے سپاہی کھڑے ہیں گلیوں میں
حضورؐ، راہزنی شوق ہَے وڈیروں کا
حضورؐ، کشتیوں کے بادباں نہیں کھُلتے
حضورؐ، کھڑکیاں سب بند ہیں مکانوں کی
حضورؐ، اشکِ ندامت ہیں منظرِ شب میں
حضورؐ، کشورِ دل بھی ہَے خاک آلودہ
حضورؐ، وقت کی گرہوں میں پڑ گئی گرہیں
حضورؐ، لمحۂ موجود کی ہتھیلی پر
کوئی چراغ جلاتا نہیں اندھیروں میں
کفن لپیٹ رکھا ہَے مرے تخیّل نے
ہوائیں ہاتھ میں لاشے اٹھائے پھرتی ہیں
بہت سی سرخ خراشیں ہیں میرے چہرے پر
برہنہ سر ہوں کھُلے آسمان کے نیچے
نظامِ شر ہی مفادات کا محافظ ہے
تمام لوگ مفادات ہی کے قیدی ہیں
حضورؐ، سارے لٹیروں کا ایک مقصد ہے
کہ خوں نچوڑ لیں آدم کی نسلِ برہم کا
کہ بج رہی ہَے خوشامد کی ڈُگڈُگی کب سے
یہ اقتدار کے بھوکے کہاں نہیں ملتے
لکھا ہوا ہَے نوشتہ ہمارے ہاتھوں پر
غبارِ خوف وراثت میں دیں گے بچوّں کو
حضورؐ، آپؐ کے در پر ہَے ایک فریادی
ضمیر جس کا بھی چھلنی ہوا ہے تیروں سے
حضورؐ، کفر کی یلغار ہم سے کیا رکتی
یہ کون لوگ درندوں کے روپ میں ہیں، حضورؐ
بگاڑنے مرے گلشن کی شکل آئے ہیں
یہ آلہ کار ہیں سرکارؐ دشمنِ دیں کے
ہمارے لوگ مربیّ ہیں ان درندوں کے
تمام بچوّں کو اِن کی غذا سمجھتے ہیں
افق پہ کالی گھٹاؤں کا منتظر ہَے کوئی
پناہ ملتی نہیں ہَے کسی جزیرے میں
حضورؐ، لعل و جواہر میں کھیلنے والے
ہمارے درد کو محسوس کر نہیں سکتے
دعا کے قَصرِ صداقت میں ہم بھی رہتے ہیں
وطن کی سرحدوں پر آگ کے سمندر ہیں
یہ لوگ اپنے ہی گھر کے ہیں مخبرِ قاتل
وطن کی فکر تخیّل میں بھی نہیں آتی
یہی کریں گے گلستاں کے روز و شب کا حساب؟
عذابِ قبر میں ہم زندہ لوگ شامل ہیں
گلی میں کھیلتے بچیّ نظر نہیں آتے
ہوا کو بند کیا جا چکا ہَے زنداں میں
ہوا کے ہاتھ میں زنجیرِ جَبرِ شب ہَے حضورؐ
حضورؐ، خُلدِ مدینہ میں سانس لیتے ہیں
اِسی لئے تو حرارت ہَے گردشِ خوں میں
چتا میں وقت کے نمرود جب جلیں گے، حضورؐ
ہوا کے ہاتھ کی ہر ہتھکڑی بھی ٹوٹے گی
حضورؐ، جھوٹے خداؤں کے آخری دن ہیں؟
قدم قدم پہ صلیبوں کی فَصل اُگتی ہے
درندگی کو ہی آئین بنا دیا کس نے
حضورؐ، سارے قوانین جنگلوں کے ہیں
زمیں پہ عدل کے موسم کو کھا گئی مٹی
غلام گردشیں خاموش ہیں اندھیروں میں
کتابِ عدل کے اوراق ہو چکے خستہ
ہوا چراغ جلاتی نہیں منڈیروں پر
حضورؐ، چھوٹے ممالک ہیں کربلاؤں میں
دھواں ہَے شامِ غریباں کا ہر طرف آقاؐ
ضمیر شہرِ تجارت میں روز بکتے ہیں
خلش ضمیر کی گِروی رکھی ہوئی ہے حضورؐ
کسی کا بوجھ ابد تک ہمِیں اٹھائیں گے؟
مہاجنوں کے تصرّف میں ہَے شرف اپنا
الجھ پڑے ہیں ستارے مرے مقدّر کے
غلیظ لوگ ہیں مامور گلفروشی پر
غلیظ لوگ نفاست کا کیا رکھیں گے بھرم
نہیں ہَے نام فراست کا ذہنِ اِنساں میں
فقط فساد کی دیوی کے یہ پجاری ہیں
حضورؐ، فتنہ و شر ہی لباس ہَے اِن کا
بجھے چراغ سجاتے ہیں یہ منڈیروں پر

ہجوم قتل گہوں کو سجانے آئے ہیں
ہم اپنے آپ سے نظریں چرانے آئے ہیں