آپؐ کے در پر کھڑا ہَے ایک فریادی حضورؐ- دبستان نو (2016)

آپؐ کے در پر کھڑا ہے ایک فریادی، حضورؐ
جس کی آنکھوں میں سوائے اشکِ غم کچھ بھی نہیں
جس کے دامن میں ہزاروں زخم ہیں بکھرے ہوئے
جس کے احوالِ پریشاں میں نہیں کوئی شریک
جس کو تنہائی کے جنگل میں ملے کانٹے ہزار
جس کے سر کی آج بھی پگڑی اچھالی ہَے گئی
جس کے آنگن میں ہوئی ہَے سنگباری آج بھی
جس کو ٹھکرایا ہَے اپنوں نے سرِ محفل، حضورؐ
جس کے بارے میں غلط فہمی ہَے پھیلائی گئی
جس کے کردار و عمل پر انگلیاں اٹھتی رہیں
جس نے خاموشی سے سارے تیر سینے پر سہے
آپؐ کے در پر کھڑا ہَے ایک فریادی، حضورؐ
جس کی جھولی میں اداسی کی پڑی ہیں کرچیاں
جس کے کشکولِ طلب میں ہیں دبی سی سسکیاں
جس کے سیلِ آب میں ڈوبی ہوئی ہیں بستیاں
جس کے ساحل پر کھڑی ہیں کاغذی سب کشتیاں
جس کی سانسوں میں رکی رہتی ہیں اکثر ہچکیاں
جس کے سینے میں مصائب کی ہیں لاکھوں برچھیاں
جس کے گھر کی ہیں ہوائیں بھی مقفّل اِن دنوں
جس کے پہلو میں کھڑا ہَے حسرتوں کا قافلہ
جس کو محرومی کا طعنہ دے اندھیروں کا وجود
جس کے خالی ہاتھ میں خالی کٹورے بھی نہیں
خون جس کا پی رہے ہیں قرض خواہوں کے ہجوم
جو مہاجن کے وثیقوں میں بھی ہَے بکھرا ہوا
آپؐ کے در پر کھڑا ہَے ایک فریادی، حضورؐ
حَشر تک جگنو درودوں کی جلائیں مشعلیں
حَشر تک نسلیں مری منصب سنبھالیں نعت کا
میرے احوالِ پریشاں کا مداوا کیجئے
میرے تشنہ لب پہ بھی حرفِ دعا کے پھول ہوں
بعدِ محَشر بھی مقرر نعت گوئی پر کریں
مَیں تصوُّر میں جوارِ گنبدِ خضرا میں ہوں
مَیں مدینے کے گلی کوچوں میں رہتا ہوں، حضورؐ
مَیں مواجھے کے چمن زارِ ثنا میں ہر گھڑی
پھول رکھتا ہوں درودوں کے بصد عجز و نیاز
عشق کی محراب میں ہَے حُسنِ عالم کا فروغ
بارشوں کی زد میں ہَے میرے بدن کا پیرہن

آپؐ سے چارہ گری کی التجا ہَے یا نبیؐ
کربلا ہی کربلا ہی کربلا ہَے یا نبیؐ