یا خدا صحنِ کراچی پر کرم کی بارشیں- دبستان نو (2016)
کربلائے عَصر کا منظر ہے میرے سامنے
ہر طرف شامِ غریباں کا دھواں نوحہ کناں
کاغذی پیراہنوں میں آدمی جلتے ہوئے
بوریوں میں بند لاشوں کا لکھو گے مرثیہ؟
ہر گلی ہر موڑ پر ابلیس زادوں کا قیام
زندگی مجہول لمحوں کی کہانی ہَے، سنو!
قَصر شاہی بے حسّی کے پانیوں میں غرق ہے
حکمِ شاہی ہَے کہ ہر آنگن سے پھر چیخیں اٹھیں
عَدل کو زنجیر پہنانے کے منصوبے بنے
سارا منظر خون کے سیلاب میں ڈوبا ہوا
منحرف چہروں کا جنگل ہر طرف آباد ہَے
روشنی کو کھا گئی شہرِ سیاست کی ہوا
مبتلا ہیں خود فریبی میں مرے رہبر تمام
گھر کی بنیادوں میں پانی بھر رہے ہیں رات دن
فکر پاکستان کی شاید کسی کو بھی نہیں
چُور زخموں سے ابھی تک منبر و محراب ہے
ہر مکاں شدت پسندوں کا ہدف ہے، یا خدا!
سسکیاں اخبار کے اوراق میں لپٹی ہوئی
ہچکیاں چھُپ کر مصّلے پر کریں سجدے ہزار
آسماں پر ہر ستارے نے بھی آنکھیں موند لیں
ہر طرف سہمے ہوئے چہروں پہ لکھّے ہیں سوال
ہر عبادت گاہ پر بارُود کی چادر بچھی
ہر طرف گرتی ہوئی لاشوں کا منظر، الاماں
خون کی بارش یہاں شام و سحر ہوتی رہے؟
آنکھ پتھرائی ہوئی ہے ہر کسی انسان کی
قُفل ہونٹوں پر سناتے ہیں کہانی جَبر کی
زندہ انسانوں میں بھی تقسیم ہوتے ہیں کفن
خون سے لکھّی گئی ہیں سرخیاں اخبار کی
مہرباں اس شہر کو کس کی نظر ہَے کھا گئی
امن کی ہر فاختہ زخمی ہوئی، میرے خدا!
خوف کے بادل تسلسل سے برستے ہی رہیں؟
کتنے بچّوں کے سروں پر سائباں باقی نہیں
خود کُشی کے ہیں دہانے پر مرے اہلِ وطن
تفرقہ بازی کی زہریلی ہوائیں چل پڑیں
خونِ ناحق بہہ رہا ہَے کوچہ و بازار میں
بند دروازوں پہ دستک موت دیتی ہی رہے؟
حاکمانِ وقت سے فریاد جا کر کیا کریں
کیا فقیہہِ شہر کا فتویٰ نہیں سب نے پڑھا؟
قفل ڈالے اپنے ہونٹوں پر ابھی خلقِ خدا
ایک اک لمحہ عذابِ ناگہانی کا شکار
بستیوں کی بستیاں ہیں خون میں ڈوبی ہوئی
خون میں ڈوبے ہوئے ہر ہاتھ میں تصویر ہے
کیا صفِ ماتم بچھاتی ہی رہے گی زندگی؟
تتلیوں اور جگنوؤں کی موت پر روئے گا کون؟
کیا دھواں شامِ غریباں کی لکھے گا داستاں؟
کیا نگل جائے گی شب صبحِ درخشاں کا وجود؟
ماں کی ممتا اپنے بیٹوں کی رہے گی منتظر؟
مکتبوں میں تختیاں کس کا کریں گی انتظار؟
کب تلک آنکھیں غبارِ کَرب میں سمٹی رہیں؟
کب تلک اشکوں سے تر دامن ہواؤں کا رہے؟
ناچتی کب تک رہے گی موت ہر بازار میں؟
کب تلک قانون جنگل کا رہے نافذ یہاں؟
گھر کے دروازوں پہ مائیں منتظر بیٹوں کی ہیں
ہر طرف خونی درندوں کی اجارہ داریاں
بیٹیاں آنگن میں کب تک خوف سے سہمی رہیں؟
کب تلک ٹکڑے بدن کے ہر طرف گرتے رہیں؟
سسکیوں سے آج بھی معمور ہے گھر کی فضا
ہر گلی کے موڑ پر کب تک جنازوں کے ہجوم
یاخدا! ہر حکمراں کو بھی ملے حکمِ اذاں
یاخدا! صحنِ کراچی پر کرم کی بارشیں
یاخدا! ٹوٹے حصارِ خوف آقاؐ کے طفیل
امن کے پرچم کھُلیں اب کوچہ و بازار میں
ہر طرف عفو و کرم کے پھول مسکانے لگیں
شہرِ قائد کے مکینوں کی خدایا خیر ہو
آسماں سے عافیت کے پھول برسیں اَن گِنت
تاابد، یارب! کراچی میں چلے بادِ خنک
تاابد، یارب! کراچی میں کِھلیں کرنوں کے پھول
تاابد، یارب! کراچی میں دھنک اترا کرے
تاابد، یارب! کراچی پر کرم کا سائباں
تاابد، یارب! کراچی کی سلامت آبرو
تاابد، یارب! کراچی خوشبوؤں کا گھر بنے
تاابد، یارب! کراچی میں رہیں خوشیاں مقیم
تاابد، یارب! کراچی میں رہے امن و اماں
تاابد، یارب! کراچی میں ملے حرفِ سکوں
تاابد، یارب! کراچی میں رہیں جلتے چراغ
تاابد، یارب! کراچی ہو بہاروں کا وطن
تاابد، یارب! کراچی عِلم کا مرکز رہے
تاابد، یارب! کراچی دیں کی ہو اونچی فصیل
یاخدا! میرے قلم کے آنسوؤں کی لاج رکھ
ہر برہنہ سر پہ تُو امن و اماں کا تاج رکھ