کبھی تو بادِ بہاری چلے گی آنگن میں- دبستان نو (2016)

چراغِ اشکِ ندامت ہَے آنکھ میں روشن
تمام حرفِ ندامت اُگے ہتھیلی پر
ہوائے جرم میں لیتا ہوں سانس رک رک کر
ہَے بوجھ میرے گناہوں کا میرے سر پہ بہت
غبارِ جاں میں کثافت ہَے ہر طرف لیکن
مَیں سوچتا ہوں، درِ مصطفیٰ پہ جاؤں گا
نیا شعور عطا ہو گا زندہ رہنے کا
کبھی تو اذنِ سفر دیں گے اپنے شاعر کو
کبھی تو بادِ بہاری چلے گی آنگن میں
کبھی تو گھر کے دریچوں میں پھول مہکیں گے
کبھی تو ارضِ بدن پر دھنک بھی اترے گی
کبھی تو بوئے گلستاں قدم بڑھائے گی
کبھی تو خفتہ تمنائیں جاگ اٹھّیں گی
کبھی تو اوجِ ثریّا پہ ہو گا میرا قدم
کبھی تو میرا ہنر بھی چراغ بانٹے گا
کبھی تو سوز کی مشعل جلے گی سینے میں
کبھی تو نعت لبوں پر دیے جلائے گی
کبھی تو حُسنِ ازل کی بہار لُوٹوں گا
ریاضؔ پرچمِ رحمت ہَے پَرکُشا اب بھی
کرم کے سکّے گرے ہیں مری بھی جھولی میں
مَیں آج اپنے مقدّر کی پھر بلائیں لُوں

کبھی تو بادِ خنک اُس گلی سے آئے گی
مرے لئے بھی حضوری کے پھول لائے گی