ہوا چراغ جلائے مرے دریچے میں- دبستان نو (2016)
درِ حضورؐ پہ آنکھوں کو چھوڑ آیا تھا
جوارِ گنبدِ خضرا میں روح تھی میری
بدن کی خاک سمیٹی تھی کیوں شبِ آخر
ادب کے سارے تقاضے ہیں پیش منظر میں
فراق و ہجر کے موسم میں آنکھ روتی ہے
ورق پہ اشکِ مسلسل گریں ندامت کے
حروف میرے قلم سے لپٹ لپٹ جائیں
ہوا چراغ جلائے مرے دریچے میں
کبھی، حضورؐ، ملے مجھ کو حاضری کی نوید
حضورؐ، بارِ دگر ہو کرم مرے گھر پر
غبارِ شہر مدینہ میں مَیں سمٹ جاؤں
درِ حضورؐ پہ آنکھوں کو چوم لوں بڑھ کر
سلام کر کے مواجھے میں اشک بن جاؤں
یقیں ہے ضبط کسی روز ٹوٹ جائے گا
ریاضؔ نعتِ مسلسل کے پھول لائے گا