مری آنکھو! ادب سے میرے تلوئوں سے لپٹ جائو- دبستان نو (2016)
مدینے کی گذرگہ پر قدم رکھّوں، نہیں بابا!
کہاں مَیں اور کہاں نقشِ کفِ پا میرے آقاؐ کے
کہاں مَیں اور کہاں تیغوں کے سائے میں سفر اُنؐ کا
کہاں مَیں اور کہاں سب سے بڑے انسان کی ہجرت
ہوا اعلان کرتی پھر رہی تھی دشت و صحرا میں
ابھی تاریخ کے چہرے پہ سورج اور چمکیں گے
ابھی گردش زمانے کی بہت سے رنگ دیکھے گی
ابھی ایمان کے انوار برسیں گے ضمیروں پر
ابھی توحید کے پرچم اڑیں گے اِن فضاؤں میں
ابھی رختِ سفر باندھے گی شامِ غم کی تنہائی
زمیں پر عدل کا موسم سکوں کے پھول بانٹے گا
مجھے ہجرت کی شب کا ماجرا ازبر ہے صدیوں سے
مجھے صدیقِ اکبرؓ کی رفاقت یاد آتی ہے
مری چشمِ تصوُّر میں ابھی مکڑی کا جالا ہے
مری چشمِ تصوُّر نے ہر اک پتھر کو چوما ہے
مری چشمِ تصوُّر نے سلامی دی ہَے آقاؐ کو
مجھے مولا علیؓ کی جاں نثاری بھی نہیں بھولی
ہر اِک لمحہ مجھے ہَے یاد اُن کی سرفروشی کا
مجھے اسماؓ کے چہرے پر پڑے تھپڑ رلاتے ہیں
مری آنکھیں غبارِ کاروانِ عشق میں گم ہیں
وہ عظمت کا سفر تاریخِ عالم کا اجالا ہے
مدینے کی گذرگہ پر قدم رکھّوں، نہیں بابا!
کروڑوں دل دھڑکتے ہیں مدینے کی گذر گہ میں
فرشتوں کا ہجومِ پَرکُشا ہے ان فضاؤں میں
مری دائیں طرف اترے ستارے آسمانوں سے
مری بائیں طرف دیکھو غروبِ شام کا منظر
اٹھے ہیں ہاتھ طیبہ کی طرف خورشیدِ عالم کے
شعاعیں جھک کے دیتی ہیں سلامی اپنے آقاؐ کو
مری آنکھو! ادب سے میرے تلووں سے لپٹ جاؤ
مدینے کے سفر پر خوش نوا شاعر بھی نکلا ہے
درودوں کے لئے گجرے، سلاموں کی لئے ڈالی
مرے دل کو دھڑکنے کا سلیقہ، یا خدا، دینا
چلے ہیں جانبِ شہرِ نبیؐ اشکِ رواں میرے
چراغاں ہو رہا ہے میری آنکھوں کے شبستاں میں
اٹھا رکھّی ہے ہر ساعت نے مشعل آرزوؤں کی
لہو کی سرخ بوندوں کا بدن میں رقص جاری ہے
دھنک کے رنگ اترے ہیں گزر گاہِ مدینہ پر
مدینے کی گذر گہ پر قدم رکھوں، نہیں بابا!
بیاضِ نعت سینے میں چھپا لایا ہوں، دیوانو!
مرے ہر ایک نقطے میں ہیں خوشبوئیں مدینے کی
مری سانسوں میں جگنو، تتلیاں ہیں پَرفَشاں کب سے
مری آنکھو! ادب سے میرے تلووں سے لپٹ جاؤ
چھپا لو ایک اک منظر ہر اک اشکِ تمنّا میں
غبارِ راہِ طیبہ کو سجا لو اپنی پلکوں پر
فضا میں حاضری کی ساعتوں پر وَجد طاری ہے
زباں پر ہیں درودِ پاک کے سب حرفِ تابندہ
چراغِ آرزو روشن ہوئے ہیں ریگ زاروں میں
قلم آبِ ثنا میں ڈوب کر صلِّ علیٰ لکھّے
دلِ بے تاب کی تختی پہ حرفِ التجا لکھّے
ورق پر آج بھی جھک کر پیمبرؐ کی ثنا لکھّے
مدینے کے شہنشہ کو کرم کی انتہا لکھّے
ہوا کے دونوں ہاتھوں پر محمدؐ مصطفٰےؐ لکھّے
مقدّر میں ہمارے ہوں، پر و بالِ ہما لکھّے
درودِ پاک پڑھ کر حاضری کا مدّعا لکھّے
طوافِ کعبۂ اقدس کو اللہ کی رضا لکھّے
مدینے کے سفر کو بھی اُسی کی اک عطا لکھّے
قلم میرا کتابِ رنگ و بو کا حاشیہ لکھّے
ہوائیں سامنے آکر مبارکباد دیں مجھ کو
مرے قلبِ منوّر پر ستارے رشک کرتے ہیں
صبا آئی ہے اُنؐ سے حاضری کا لے کے پروانہ
مَیں اپنی خوش نصیبی پر خوشی سے جھوم اٹھّا ہوں
مرے سجدوں کی بے تابی زمیں دیکھے، فلک دیکھے
مَیں اِن آنکھوں سے دیکھوں گا جمالِ گنبد خضرا؟
کہ جن آنکھوں میں دنیا کی ہوس ہے موجزن اب تک
مَیں، اِن آنکھوں سے دیکھوں گا درِ سرکار دو عالمؐ؟
کہ جن آنکھوں میں رہتی ہے زمانے بھر کی تاریکی
مگر ڈھارس بندھاتی ہے مرے سرکارؐ کی رحمت
دلاسہ مجھ کو دیتی ہیں مدینے کی ہوائیں بھی
بہت سی خوشبوئیں میرے قلم کو چومنے آئیں
مرے اندر کا انساں کہہ رہا ہے خوشنوا شاعر!
ترے آقاؐ بڑے ہی مہرباں ہیں، چل مدینے میں
چھپا لیں گے وہ شفقت سے تجھے دامانِ رحمت میں
مواجھے میں ترے آنسو لپٹ جائیں گے جالی سے
درودِ پاک جاری ہو گا تیرے خشک ہونٹوں پر
قلم تیرا سلامی دے گا جھک جھک کر نبی جیؐ کو
مقدّر تیرا اپنی ہی بلائیں لے گا پہروں تک
کرے گا رَقص دیوانہ ریاضؔ اپنے مدینے میں
چھپا لے گا ہر اک منظر ادب سے آج سینے میں