حصارِ خوف میں سہمی ہوئی ہَے میری بینائی- دبستان نو (2016)

حضوری کی کسی دن روشنی اترے مرے دل میں
مرے ہر آئنے میں عکس ہَے آقاؐ کی نگری کا
جوارِ گنبدِ خضرا میں رکھّی ہیں مری آنکھیں
مواجھے کی فضاؤں میں مرا دل بھی دھڑکتا ہے
مرے آنسو فروزاں ہیں غبارِ شہر طیبہ میں
مجھے گلزارِ طیبہ سے گلِ تازہ کوئی لا دے
مرے آنسو، مرا زادِ سفر ہیں، ہمسفر میرے
سنہری جالیوں کو چومنے کی دل میں حسرت ہے
غلامی کی سند لے کر پلٹ آؤں یہ نا ممکن
درِ سرکارؐ پر عمرِ رواں کو چھوڑنے والو!
مقدّر پر تمہارے رشک آتا ہَے زمانے کو
حصارِ خوف میں سہمی ہوئی ہَے میری بینائی
مرے آنگن کے پیڑوں پر کبھی برسے گھٹا آ کر
حضوری کی کسی دن روشنی اترے مرے دل میں

نبی جیؐ، فیض(1) کو دامانِ رحمت میں چھپا لیجے
اسے قدمَین میں آنے کی جلدی تھی مرے آقاؐ
کروڑوں اشک رکھ آیا ہَے اپنی ماں کی آنکھوں میں
جدائی کے ہزاروں زخم دے آیا ہَے ابّو کو
اداسی کی ردا میں سسکیاں بھرتے ہیں سب بچّے
شفاعت کی اِسے چادر عطا کر دیں مرے آقاؐ

مدینے سے پلٹ آنا مرے بس میں نہیں آقاؐ
کہ جگنو آرزوؤں کے لہو میں رقص کرتے ہیں
کہ سانسوں پر ثنا کی تتلیوں کی حکمرانی ہے
کہ موسم التجاؤں کا مرے ہونٹوں پہ رہتا ہے
حصارِ خوف میں سہمی ہوئی ہَے میری بینائی

مریضِ عشق ہوں، میرے لئے خاکِ شفا لائیں
ہوائیں نقشِ پا اُنؐ کے مدینے سے اٹھا لائیں

(1) فیض رسول میرے چھوٹے بھائی اطہر حمید کا جوانمرگ بیٹا