امت کے تن پہ ِعلم کی پوشاک ہو حضورؐ- دبستان نو (2016)

اے شہرِ عِلم شہرِ جہالت پہ ہو نظر
بھٹکے ہوئے بشر کو ملیں آگہی کے پھول
فکر و نظر کے دامنِ بے نور میں چراغ
تہذیبِ نو کے اجڑے چمن میں کھِلیں گلاب
مکتب سے، دفن ہوتی کتابوں کا ہو خروج
کب سے قلم کے دامنِ صد چاک میں ہَے خاک
کب سے سحر کے پاؤں میں زنجیرِ شام ہے
کب سے چراغِ عَدل اندھیروں کا ہَے نقیب
شب خوں پڑا ہَے آدم و حّوا کے نام پر
نیلام گھر میں کب سے ہیں اجداد کے کفن
تاریخ کب سے اپنے ہی اوراق میں ہَے گم
آقاؐ، ہوس نے گل ہیں کھلائے نئے نئے
آقاؐ، دیے بجھا کے ہَے آندھی گذر گئی
تسخیرِ کائنات کا ہر باب بند ہَے
انسان اپنی ذات کے اندھے کنویں میں ہے
غارِ حرا کا نور ہو اس کے ضمیر میں
اس کو غلافِ کعبہ کی رحمت نصیب ہو
سب کو ملے یہ رکنِ یمانی کا رتجگا
انساں سراب ڈھونڈ کے لایا ہَے دشت سے
آقاؐ، ہوائے شہرِ مدینہ کو حکم ہو
ہر طاق میں چراغ جلائے شعور کے
افکارِ نو کے بند دریچوں کو کھول دے
زنجیر پا ہوئے ہیں اجالوں کے قافلے
لب پر درودِ پاک کے جگنو کریں قیام
تقسیم پھر ہوں سیرت و کردار کے چراغ
عزم و عمل کی زندہ ہوں ساری حکایتیں
اُمّت کے تن پہ عِلم کی پوشاک ہو حضورؐ

قول و عمل کے سارے تضادات ختم ہوں
جھوٹی اَنا کے جھوٹے مفادات ختم ہوں