آبخورے لکھ رہے ہیں تشنگی کی داستاں- دبستان نو (2016)

لب کُشا، میری ندامت کے پسینے کا قلم
یا خدا! میرے لرزتے ہاتھ بھی گویا ہوئے
میرے اشکوں نے اٹھا رکھّے ہیں حرفِ التجا
میرے آنگن کی ہواؤں کے ہیں لب سوکھے ہوئے
گھر کی چھت پر آرزوؤں کے کنول ہیں اَن گِنت
چِلچلاتی دھوپ میں سر پر ردائیں بھی نہیں
آبخورے لکھ رہے ہیں تَشنگی کی داستاں
خون پھر بکھرا ہوا ہَے آج کے اخبار میں
منحرف چہرے گلی بازار میں بکنے لگے
کشتیوں کے بادباں جلنے لگے ہیں آگ میں
سامراجی طاقتوں کے کب سے ہم نَرغے میں ہیں
ہم نے گِروی رکھ دئیے ہیں اپنے آبا کے کفن
لاش غیرت کی سرِ بازار لے آئے ہیں ہم
باوجود اِس کے نہیں ہَے امن کا خیمہ نصیب
یاخدا! مردہ ضمیروں میں تپش باقی نہیں
اپنی تہذیبی اکائی کا نہیں ہم کو شعور
اپنے ماتھے پر خجالت کی شکن کوئی نہیں
عدل کو ہم نے بکاؤ مال ہَے سمجھا ہوا
یاخدا! کب سے ثقافت اَن گِنت خطروں میں ہے
یاخدا! کر التجا نادان اُمّت کی قبول
امن کے لمحوں کی ہم کو چار دیواری ملے
عافیت کی سبز کرنوں کی کبھی بوندیں گریں
یا خدا! اپنے نبیؐ کے دامنِ رحمت میں رکھ
تخت خالی آمریت کے عَلَم داروں سے ہو
در گذر سب کی خطاؤں سے، خدائے آسماں!
تُو امیرِ کارواں کو آگہی کا نور دے
یا خدا! آنسو فروزاں ہوں ہمارے ہاتھ پر
کاش ابھرے ہر سفینہ ساحلِ امید پر
موسمِ شاداب اترے پھر جلے گلزار میں
حرفِ مبہم کی کسی مکتب میں کیوں تفہیم ہو؟

رہنما تو بیچ کھائیں گے متاعِ کارواں
دے انہیں حکمِ اذاں، حکمِ اذاں، حکمِ اذاں