قضا غریب ممالک کی سرحدوں پر ہے- دبستان نو (2016)
بہت اداس خدائی ہَے اِن دنوں تیری
زمیں پہ جھوٹے خداؤں کی ہَے عملداری
صنم کدوں میں چراغاں مرے لہو سے ہَے
بندھے ہوئے ہیں رعایا کے ہاتھ برسوں سے
کبھی بھی اس کے بڑھاپے کے دن نہیں بدلے
غریب لوگ ہی آتشکدوں کا ایندھن ہیں
غلام گردشِ قَصرِ اَنا اندھیروں میں
کسی عجیب کہانی کو دے رہی ہَے جنم
لکھے ہیں آج وثیقے مہاجنوں نے بہت
نشاں ورَق پہ انگوٹھے کے کون چھوڑے گا
بہت اداس خدائی ہَے اِن دنوں تیری
درخت خوفزدہ ہیں کہ اِن کی چھاؤں میں
ہوائیں تیشۂ فولاد لے کے آئی ہیں
درخت موسمِ شاداب سے بھی ڈرتے ہیں
نہ بلبلوں کا ترنم نہ جگنؤوں کی قطار
گلاب بند ہیں کلیوں کے خول میں کب سے
چمن سے خوشبوئیں مفرور ہوتی جاتی ہیں
سمٹ رہی ہَے کسی قبر میں شبِ ماتم
خدا کے خوف سے عاری ہَے اہلِ زر کا ضمیر
فساد و فتنہ و شر کا الاؤ روشن ہَے
بہت اداس خدائی ہَے اِن دنوں تیری
فراتِ عشق پہ قابض ہیں کوفیوں کے ہجوم
فضا میں خوف مسلط ہَے کتنی صدیوں سے
چراغ جلنے کا بھی کب شعور رکھتے ہیں
یزیدِ وقت کھُلے عام پھر رہے ہیں یہاں
سروں کی فَصل کٹائی کے مرحلے میں ہَے
ہوا کو شامِ غریباں نے ہَے دیا پُرسہ
سپاہِ جَبر کے خیموں میں روشنی ہَے بہت
فریب و دجل کا موسم محیط ہَے کب سے
ہیں خود کُشی کے دہانے پہ آج کی نسلیں
مرے خدا، مرے لوح و قلم کو دے ہمت
بہت اداس خدائی ہَے اِن دنوں تیری
سجی ہیں قتل گہیں ہر قدم پہ دنیا میں
قدم قدم پہ مفادات کے ہیں انگارے
قدم قدم پہ ہَے بارود کی بچھی چادر
تمام لوگ حصارِ انا کے قیدی ہیں
کسی نے کھول دئیے ہیں قضا کے دروازے
گری ہَے امن کی دیوار اپنے قدموں پر
بہت اداس خدائی ہَے اِن دنوں تیری
قضا غریب ممالک کی سرحدوں پر ہَے
غریب ماں کی بھی لاٹھی جلی ہَے آنگن میں
غلیظ لوگوں کے سر پر رکھی گئی پگڑی
عذاب ان کا مسلط ہَے ہر جزیرے پر
بہت اداس خدائی ہَے اِن دنوں تیری
لہو کے پیرہن اتریں مری فضاؤں سے
کرم کے پھول برستے رہیں گھٹاؤں سے