مَیں مصائب کی اٹھائے پھر رہا ہوں گٹھڑیاں- دبستان نو (2016)
التجاؤں سے بھرا رہتا ہَے کشکولِ طلب
پیش کرتا ہوں وسیلہ مَیں ترے محبوبؐ کا
مَیں مصائب کی اٹھائے پھر رہا ہوں گٹھڑیاں
مَیں مسائل کے جزیروں میں مقیّد ہوں ابھی
زر کے مَیں جھوٹے خداؤں کے ابھی نَرغے میں ہوں
مَیں ترا نا چیز بندہ ہوں مرے اچھے خدا!
مجھ کو بھی، یارب، شعورِ بندگی کرنا عطا
اپنی ہر مخلوق کا روزی رساں تُو ہی تو ہَے
بھوک اُگتی ہے مرے بے آب کھیتوں میں ابھی
ایک ناکارہ سا مَیں انسان ہوں میرے خدا!
مَیں تو اپنے کھیت کو پانی بھی دے سکتا نہیں
باوجود اِس کے تُو رکھتا ہَے مری کھیتی ہری
میری شاخوں پر جلاتا ہَے تو پھولوں کے چراغ
میری شاخِ التجا جھک کر تجھے سجدہ کرے
دے تحفظ کی ردا، میرے خدا، گھر بار پر
بندگی کا نور میرے دامنِ صد چاک میں
مَیں تلاشوں روشنی شہرِ نبیؐ کی خاک میں