اُفق اُفق پہ مدینے کا سبز موسم تھا- دبستان نو (2016)
گرفتِ زر میں لرزتا رہا بدن کا چراغ
حصارِ شب میں مقفّل رہیں مری آنکھیں
فراتِ عشق میں بہتے رہے مرے آنسو
حضورؐ، اُمّتِ ناداں ہدف ہَے سازش کا
گلی گلی میں چڑیلوں کا رَقص جاری ہَے
محاذِ جنگ پہ میرے لہو کی بارش تھی
محاذ جنگ پہ میرے لہو کی بارش ہَے
ہمارے قَصرِ حماقت میں دن گذرتے ہیں
خودی کی موت پر آنسو نہیں ہیں آنکھوں میں
غبارِ شامِ غریباں کسی اُفق پہ نہیں
فضائے جَبر میں بکھرا رہا قلم کا شباب
کسی کے قَصرِ اَنا کی ہر اینٹ تھی دھوکہ
فریب و دجل کے سِکّے ہی معتبر ٹھہرے
حضورؐ، زندہ روایت سے منحرف چہرے
قلم کے آئنہ خانے میں رقص کرتے تھے
ہوائے خوف میں اڑتے ہوئے پرندوں نے
بہارِ شہرِ مدینہ کی آرزو کی تھی
حضورؐ، آپؐ کے دامانِ عفو و رحمت میں
پناہ ڈھونڈنے نکلا تھا قافلہ میرا
حضورؐ، پہلی دہائی نئی صدی کی بھی
ثناء کے پھول سجاتی رہی دریچوں میں
قلم کے ہاتھ پہ لاکھوں چراغ جلتے تھے
افق افق پہ مدینے کا سبز موسم تھا
قدم قدم پہ چراغوں کا رقص جاری تھا
فضا میں ابرِ کرم نے چراغ بانٹے تھے
صبا، گلاب، ہوا، روشنی، شفق، شبنم
درود پڑھتی ہوئی ساعتوں کی رم جھم میں
بیاضِ نعت کے اوراق پر فروزاں تھے
خدا کا ذکر مصّلے پہ جھک کے کرتے تھے
نبیؐ کی نعت سناتے تھے کہکشاؤں کو
کہیں بھی منظرِ شامِ الم نہیں بدلا
غبارِ جَبر کے سائے تھے آنگنوں پہ محیط
ردائے سبز کا ہر تار جل رہا تھا، حضورؐ
گزرتے سال کے دامن میں اشک تھے میرے
متاعِ عمر پہ شب خون کب نہیں پڑتا
حضورؐ، کب سے ہَے میرا وطن سرِ مقتل
حصار آہنی ہَے آپؐ کے غلاموں کا
حضورؐ، آپؐ کی حرمت پہ کٹ مریں گے ہم
نثار میرے قبیلے کے مرد و زن، آقاؐ
نثار میرے قبیلے کا ہر جواں ہو گا
ہَے اِس برس بھی چراغاں رہا مرے گھر میں
قلم گلاب سجاتا رہا کتابوں میں
حضورؐ، چاند ستارے ورق پہ لکھّے ہیں
حضورؐ، اب کے برس بھی رہا مواجھے میں
رہا نگاہ کے دامن میں گنبدِ خضرا
رہی ہَے چشمِ تمنا میں آپؐ کی چوکھٹ
خدا کا شکر ہَے ابرِ کرم کی بارش میں
چراغ اب کے برس بھی رہے مرے روشن
مَیں اس برس بھی اداسی کے جنگلوں میں رہا
مگر، حضورؐ، بلایا تھا آپؐ نے در پر
ہر ایک زخم پہ مرہم حضورؐ رکھّا تھا
صنم کدوں میں رہا رقص شیطنت کا حضورؐ
قدم قدم پہ مناظر تھے خودکُشی کے بہت
کہ گردِ کفر سے مسموم تھی فضا ساری
حضورؐ، آپؐ نے دے کر دعا کیا رخصت
حضورؐ، آپؐ کے در سے مجھے ملا سب کچھ
حضورؐ، عید کے دن حاضری کا وہ منظر
قیامِ حَشر تلک یہ کبھی نہ بھولے گا
نئی صدی کی دہائی یہ اوّلیں، آقاؐ
مرے لہو سے بناتی رہی ہَے تصویریں
حضورؐ، خوفزدہ مکتبوں کے تھے بچّے
غبارِ کرب میں چیخیں تھیں میرے بچّوں کی
مری زمین پہ لاوا کہاں سے آ نکلا
ملوکیت کے خدا بت بنے رہے، آقاؐ
بجی ہَے خوب خوشامد کی ڈگڈگی اب کے
کرپٹ لوگ مسلّط تھے کرسیوں پہ، حضورؐ
کرپٹ لوگ مسلّط ہیں کرسیوں پہ، حضورؐ
حضورؐ، جرمِ ضعیفی میں مبتلا تھے ہم
حضورؐ، جرم ضعیفی میں مبتلا ہیں ہم
حضورؐ، خواب ہمارا یہ خواب تھا کل بھی
جوان عظمتِ رفتہ کی آرزو کرتے
ہوائے شہرِ مدینہ سے گفتگو کرتے