صلِّ علیٰ کی رم جھم ہونٹوں پہ گر رہی تھی- دبستان نو (2016)

آواز دے رہا ہوں گذرے ہوئے برس کو
گذرے ہوئے برس نے کیا کچھ نہیں دیا ہے
آنسو خوشی کے مجھ کو لاکھوں ہزار بخشے
اللہ کی مَیں رضا پر شاکر ہوں ہر طرح سے
مختار ہَے جو میرا، مختار ہے جو سب کا
مخلوق جس قدر ہَے، دیتا ہَے رزق اس کو
ارض و سما کا مالک، روزِ جزا کا مالک
سب سے بڑا خدا ہَے، سب سے بڑا خدا ہے
آقائے دو جہاںؐ ہیں محبوبؐ اُس خدا کے
اب کے برس بھی اُس نے اذنِ ثنا دیا تھا
میری زباں کا دامن پھولوں سے بھر دیا تھا
ذوقِ سفر دیا تھا شاخِ قلم کو اُس نے
گذرے ہوئے برس میں نعتیں کہی ہیں مَیں نے
دن کے بھی وقت جیسے آنگن میں رتجگا تھا
خوشبو ہجوم کر کے نوکِ قلم میں سمٹی
اتری دھنک ورَق پر دیتے ہوئے سلامی
بزمِ خیال پلٹی اوجِ فلک کو چھو کر
صلِّ علیٰ کی رم جھم ہونٹوں پہ گر رہی تھی
پڑھ کر درود اُنؐ پر مہکی ہوئی ہوا نے
میری ہتھیلیوں پر رکھّے چراغِ مدحت
دامانِ مصطفیٰ میں سب کچھ خدا نے رکھّا
جتنے بھی ہیں خزینے ارض و سما کے ربّ نے
ان کی کلیدِ رحمت سرکارؐ کو عطا کی
نقشِ قدم ہیں جن کے معراجِ آدمیت
بندے بھی ہیں خدا کے، محبوبؐ بھی اُسی کے
ختم الرسلؐ بھی وہ ہیں، سردارِ انبیاؐ بھی
جن کا مَیں نعت گو ہوں، جن کا مَیں اُمّتی ہوں
بزمِ ثنا میں جن کی ہر وقت روشنی ہَے
ہاتھوں میں جن کے ہو گا پرچم شفاعتوں کا
جن کے نقوشِ پا کو بوسہ دیا فلک نے
سب کچھ نثار اُنؐ پر، سب کچھ نثار اُنؐ پر
پورا برس ہی جھک کر اوراقِ دلنشیں پر
مَیں خوش نصیب شاعر لکھتا رہا قصیدے
توصیفِ مصطفیٰؐ کے لاکھوں دیے جلائے
آسودگی کے لمحے اللہ سے مَیں نے پائے
تارے فلک سے میرے لب چومنے کو آئے
رحمت کی ساعتوں کو مَیں نے گلے لگایا
دامن، نئی صدی کے اِس ساتویں برس نے
امید کے ہزاروں پھولوں سے بھر دیا تھا
ننھی سی حوریہ کی سنگت خدا نے بخشی
سیرت پیا کے گھر بھی اب کے برس سدھاری
شکرِ خدا ہَے، گھر میں ہوتا رہا چراغاں
اِس قلبِ مطمئن میں لاکھوں گلاب مہکے
آنگن میں ہر طرف سے پتھر ضرور برسے
لیکن چمن میں میرے کھِلتی رہی ہیں کلیاں
میرا قلم ورَق پر کرتا رہا ہَے سجدے
امّی حضور رخصت اب کے برس ہوئی ہیں
ممتا کے پھول اب بھی مرقد میں کھِل رہے ہیں
رحمت کے پھول، یارب، چاروں طرف سے برسیں
سرکارؐ کا وسیلہ ہو مغفرت کا باعث
ابّا حضور کے بھی مرقد میں روشنی ہو
آنسو بھی ہمسفر تھے، آہیں بھی ہمسفر تھیں
اب کے برس بھی دھوکہ اپنوں سے مَیں نے کھایا
اب کے برس بھی مجھ کو تضحیک کا نشانہ
اپنوں نے ہَے بنایا، جی بھر کے ہَے ستایا
بچّوں کے سر برہنہ اپنوں نے ہی کئے ہیں
چھینی گئی ہَے میرے بچّوں کے سر سے چھت بھی
کبر و ریا کا جادو سر پر ہَے چڑھ کے بولا
مردہ ضمیر کب تک ماتم کریں گے اپنا
مَیں نے حصارِ شب میں پورا برس گذارا
طیبہ کے سَمت میری اٹھّی رہیں نگاہیں
اپنے خدا کی جانب بھیجے دعا کے لشکر
اک دن شبِ سیہ میں اتری کرن خوشی کی
پیغام لے کے آئی آقاؐ کے در سے خوشبو
آقاؐ نے مجھ کو اپنے در پر طلب کیا تھا
بختِ رسا کے مَیں نے سو بار ہاتھ چومے
اللہ کے گھر میں مَیں نے یہ التجا گذاری
مجھ کو معاف کردے، اِن کو معاف کر دے
اللہ کے در سے ہو کر آقاؐ کے در پہ پہنچا
رودادِ غم سنا کر آقاؐ سے بھیک مانگی
یہ عیدِ فطر مَیں نے قدمَین میں منائی
مجھ کو تسلیوں کے بخشے حروفِ دلکش
مجھ کو دیا دلاسہ سرکارِ دو جہاںؐ نے
ڈھارس مری بندھائی آقائے محتشمؐ نے
آقائے محتشمؐ نے تھا حوصلہ بھی بخشا
زخموں پہ عافیت کا مرہم نبیؐ نے رکھا
دہلیزِ مصطفیٰؐ کو مَیں تھام کر ہوں رویا
مَیں بے نوا سا شاعر مَیں آپؐ کا سوالی
سرکارؐ اس قدر مَیں کب معتبر ہوا تھا
آقاؐ حضورؐ، میری اوقات کچھ نہیں ہے
آقاؐ حضورؐ مجھ پر اتنا کرم کیا ہے!
اے جان و تن کے مالک، میرے خدائے بر حق

اب کے برس بھی آنکھیں در پر ہوں چھوڑ آیا
مجھ پر کرم خدایا، مجھ پر کرم خدایا