تا ابد میرے گلستاں میں چلے بادِ نسیم- دبستان نو (2016)

شام کے سائے بہت گہرے ہوئے ہیں، یاخدا!
زندگی ہَے سسکیوں اور ہچکیوں کے درمیاں
سانس کی ڈوری الجھتی جا رہی ہَے کیا کروں
رقص میں ہیں بھوک کے عفریت ہر اک کھیت میں
ایک اک گندم کا خوشہ لے اڑی ہیں آندھیاں
کاغذی کشتی ہَے میری بارشوں کے شور میں
ساحلِ امید پر ہیں نارسائی کے خطوط
ان گنت چڑیاں مرے آنگن سے رخصت ہو گئیں
بھوک کب سے تھی تلاشِ رزق میں میرے خدا!
میرے گھر کا راستہ ہَے یاد خوشبو کو کہاں
بے نوائی کے جزیرے میں پڑا رہتا ہوں مَیں
خوف کے جنگل مرے چاروں طرف آباد ہیں
سر برہنہ پا برہنہ کب تلک چلتا رہوں
ڈھونڈتا ہوں جگنوؤں کو جھاڑیوں میں رات بھر
تتلیوں کے پر نہیں ملتے کتابوں میں مجھے
میرے آنگن کے درختوں پر کوئی کوئل نہیں
ہر دریچے میں چراغِ آرزو بجھنے لگے
ہر طرف چھائی ہوئی ہَے یاسیّت کی تیرگی
خیمہ زن ہیں میرے گلشن میں خزاں کی ٹولیاں
میری آنکھوں میں اتر آیا ہَے اشکوں کا ہجوم
بھوک کی فصلیں اگی ہیں ہر طرف میرے خدا!
زخم ہیں محرومیوں کے جسم پر رِستے ہوئے
یا خدا! کر میرے اِن احوال پر فضل و کرم
تیرے در پر بن کے آیا ہوں مَیں حرفِ التجا
یاخدا! مَیں نے مصّلے پر رکھی ہیں حسرتیں
تُو مرا خالق نہیں کیا تُو مرا رازق نہیں؟
کیا ترے ہی اذن سے چلتی نہیں بادِ خنک؟
کیا تری ذاتِ مقدس ہی نہیں سب کچھ مرا؟
کیا فقط تُو ہی نہیں حاجت روا، مشکل کشا؟
ذات لا محدود ہو تیرے سوا، ممکن نہیں
جو بھی ہَے تیرے سوا وہ سب تری مخلوق ہے
کون ہَے تیرے سوا جس کو بشر سجدہ کرے
خشک پتوں کی طرح بکھری ہوئی ہوں داستاں
چِلچلاتی دھوپ میں، میرے خدا! جاؤں کہاں؟
اپنا نوحہ لکھ رہی ہَے میری عمرِ رائیگاں
دستگیری میری فرما اے خدائے آسماں!
کون ہَے تیرے سوا روزی رساں مخلوق کا؟
کون رکھتا ہَے دریچوں میں نئے دن کے گلاب؟
کون دیتا ہے مریضوں کو شفا کے پیرہن؟
کون دیتا ہَے ستاروں کو چمکنے کا ہنر؟
کون شاخوں پر سجاتا ہَے گلِ تازہ کے رنگ؟
کون دیتا ہَے سوا تیرے ہمیں آبِ شفا؟
میرے دامانِ طلب میں پھول بھر جاتا ہے کون؟
ہر دریچے میں گلِ خوشرنگ دھر جاتا ہے کون؟
جبرِ شب کے روبرو جینا سکھا جاتا ہے کون؟
قریۂ امید میں شمعیں جلا جاتا ہَے کون؟
کشتِ جاں میں دلکشا منظر سجا جاتا ہَے کون؟
سایۂ دیوار کو خیمہ بنا جاتا ہَے کون؟

آج بھی مَیں نے پکارا ہَے تجھے ربِّ کریم!
تا ابد میرے گلستاں میں چلے بادِ نسیم