ترے کرم کا ہَے ہر سلسلہ بھی لا محدود- دبستان نو (2016)
مجھے شعور ملے بندگی کا، میرے خدا!
ترے ہی ذکر میں مصروف ہو زباں میری
مری دعاؤں کو پرواز کا سلیقہ دے
ترا خیال حدود و قیود سے بالا
سوائے عجز، نہیں کچھ مرے خیالوں میں
تُو ہی ہے قادرِ مُطلق تُو ہی ہے ربِّ جلیل
ترے کرم کا ہَے ہر سلسلہ بھی لا محدود
ترے ہی قبضۂ قُدرت میں جان ہے میری
تُو ہی گلاب اُگاتا ہے مرغزاروں میں
ہوا کے ہاتھ میں حمد و ثنا کی قندیلیں
تُو لا شریک ہَے، یکتا ہے اور تنہا ہے
ترا کلام محافظ ہَے میری سوچوں کا
ہر ایک لفظ کو حُسنِ کلام دیتا ہَے
تمام رات ستارے کریں ثنا تیری
صبا چمن میں ترے نام کی جپے مالا
ترے ہی حکم کے پابند جِنّ و انساں ہیں
اُفق اُفق ترا آبِ ثنا میں ڈوبا ہے
مرے سجود ہیں لذّت سے آج بھی خالی
مرے بدن پہ اندھیروں کا خوف طاری ہے
تمام الجھنیں میری زمیں کا رزق بنیں
غبار زندہ مسائل کا کب تلک برسے
کھڑی ہیں بھوک کی فصلیں مری زمینوں میں
بدن نے اوڑھ لی زخموں کی شال پھر مولا!
کتابِ شوق کے اوراق اُڑتے پھرتے ہیں
تمام کھول دے گرہیں مری ہواؤں کی
اٹھے ہیں ہاتھ دعا کے لئے چراغوں کے
تُو اپنے فضل کی بارش اتار مقتل میں
زمیں پہ خون کی نہریں ہوں دودھ کی نہریں
ملے سحر کے اجالوں سے گفتگو کا ہنر
زمین تیری ہَے اور آسماں بھی تیرے ہیں
ہر ایک ذرّہ تری حمد کر رہا ہے بیاں
حضورؐ بندے ہیں، تیرے رسولِ آخرؐ ہیں
ترے حبیبِ مکرّمؐ ہیں، میرے آقاؐ ہیں
عطا ہوئی ہیں اُنہیؐ کو بلندیاں ساری
اُنہیؐ کے سر پہ سجایا ہَے تاج عظمت کا
اُنہیؐ کے ہاتھ میں پرچم شفاعتوں کا ہَے
اُنہیؐ کو رحمتِ عالمؐ لقب دیا تُو نے
اُنہیؐ کے واسطے تخلیق سب خدائی کی
اُنہیؐ کا ذکر، مسلسل بلند کرتا ہے
اُنہیؐ کو عرشِ معلی پہ تُو نے بلوایا
مرے حضورؐ کو کیا شان تُو نے بخشی ہے
حضورؐ بندے ہیں تیرے مگر مرے مولا!
درود آپؐ پہ پڑھتا ہے تُو محبت سے
درود پڑھتے ہیں اُنؐ پر ترے فرشتے بھی
ہمیں بھی حکم ہَے اُنؐ پر درود پڑھنے کا
ہمیں بھی حکم ہَے اُنؐ کو سلام کہنے کا
انہیؐ کو تُو نے وسیلہ بنایا بخشش کا
مرے خدا مجھے عشقِ نبیؐ کی دولت دے
مرا حوالہ پیمبرؐ کی نسبتوں سے ہے
مجھے غلامیٔ سرکارؐ کا بھی پروانہ
مجھے حضورؐ کی مدحت میں سر بلندی دے
درِ حضورؐ پہ رحمت کی بارشیں، یارب!
مرے بدن پہ ندامت کے اشک گرتے ہیں
عرب کی ریگِ منّور مرا مقدر ہو
مرے خدا مرے اشکوں کی لاج رکھ لینا
مری دعاؤں کے سر پر بھی تاج رکھ دینا
مرے قلم کو ثنائے حضورؐ کی رم جھم
زمیں پہ امن کی برکھا پڑے تَسلسُل سے
زمیں کے جھوٹے خداؤں کو بھی قضا نگلے
زمیں میں بھوک کی کھیتی پہ برق لہرائے
نفاذِ عدل کا بادل گلی گلی برسے
حصارِ خوف سے نکلیں حروفِ تابندہ
زمیں کی سسکیاں سنتا ہے تُو خدا میرے
زمیں پہ حکمراں نقشِ قدم ہوں آقاؐ کے
برہنہ سر مری مٹی پہ عِلم کی چادر
سکونِ قلب کی دولت زمین والوں کو
مری حیات مدینے کا پھول ہو جائے
ہر ایک سجدہ قلم کا قبول ہو جائے