بھوک سے چھوٹے ممالک کو ملے آقاؐ، نجات- دبستان نو (2016)
ایک اطمینان ہَے ہر ہر قدم پر، یا نبیؐ
آپؐ سے نسبت غلامی کی مجھے حاصل ہوئی
آپؐ کے دربان کے دربان ہیں بچیّ مرے
تھپکیاں دیتی رہی میرے قلم کو روشنی
تتلیاں بیٹھی رہیں لب پر درودِ پاک کی
عشق کی محراب میں میری لُغت سجدے میں ہَے
اے خدا! توفیق دے لکھّوں ثنا سرکارؐ کی
سائلِ خلدِ نبیؐ کو حسن کی خیرات دے
سائلِ خلدِ نبیؐ کو عشق کا سوزِ دروں
سائلِ خلدِ نبیؐ کو چاند راتوں کا گداز
سائلِ خلدِ نبیؐ کو دے غلامی کی سند
سائلِ خلدِ نبیؐ کو رونے والی آنکھ دے
سائلِ خلدِ نبیؐ کو عِلم کی سوغات دے
سائلِ خلدِ نبیؐ کو سجدہ ریزی کا شعور
ہر مرا حرفِ طلب پڑھتا رہے اُنؐ پر درود
میرے آنگن میں ثنائے پاک کے جگنو اڑیں
ہوں کرم کی بارشیں شاخِ بریدہ پر، حضورؐ
امنِ عالم کی ملے اولادِ آدم کو نوید
بھوک سے چھوٹے ممالک کو ملے آقا، ؐ نجات
عَدل کی زنجیر کو کس نے مقفّل کر دیا
جلوہ گر قَصرِ اَنا کے ہے جھروکے میں کوئی
خود فریبی کے ابھی جنگل سے ہم نکلے نہیں
ہر مسافر کو مدینے کا مبارک ہو سفر
ہر مدینے کے مسافر کے قدم چومے صبا
ہر مدینے کے مسافر کی زیارت ہو مجھے
زندگی اوہام میں لپٹی رہے کب تک، حضورؐ
زندگی زندہ مسائل کے ابھی خانوں میں ہے
اب کِھلیں آسودگی کے پھول میرے ہاتھ پر
خوشبوئیں انگلی پکڑ کر جانبِ طیبہ چلیں
ہاں، مدینے کی حسیں گلیوں کا دیوانہ ہوں مَیں
ہاں، مری سانسوں میں اڑتی ہیں وفا کی تتلیاں
ہاں، مرے سر پر غلامی کے کبوتر ہیں حضورؐ
مَیں بھکاری ہوں، درِ اقدس پہ رہتا ہوں، حضورؐ
آنسوؤں سے میرا کشکولِ طلب لبریز ہے
میری بستی میں اندھیرا ہَے اجالا کیجئے
امُّتِ مظلوم کے ہر دکھ کا چارہ کیجئے