ہر پرندے کی زباں پر ہَے تری حمد و ثنا- دبستان نو (2016)

سر تا پا حرفِ تشکّر، عاجز و مسکین ہوں
تیری ہر نعمت پہ سجدہ ریز ہَے میری جبیں
میری کشتِ آرزو ابرِ کرم کی منتظِر
اپنے پُر تقصیر بندے کی خطا سے در گذر
اے خدائے مہرباں! تُو آپ ہی اپنی مثال
تُو سمائے عقلِ ناقص میں کبھی ممکن نہیں
حیطۂ اِدراک میرے عجز کی روشن کتاب
اَن گِنَت میرے تخیل کو پرِ پرواز دے
میری سوچیں تیرے کعبے کی فضاؤں میں اڑیں
میرے دامن میں چراغِ آرزو جلتے رہیں
شب کی تاریکی مری صبحوں کا کیوں ماتم کرے
کیوں مرے آنگن میں اترے آفتابوں کی تپش
ہر جگہ تیرا قدم ہَے، ہر جگہ تیرا وجود
علم و دانش، فکر و فن تیری عطاؤں کے صدف
تُو ہمیشہ سے ہَے اور رہنا ہمیشہ ہَے تجھے
تُو ازل کی انتہا ہَے تُو ابد کی انتہا
یکتا و تنہا زمین و آسماں میں تُو ہی تُو
ہر کوئی مخلوق ہَے تیری تُو ہے سب کا خدا
بادشاہوں کا بھی تُو ہے بادشہ، ربِّ کریم!
تُو ہی سنتا ہَے ہماری التجا کی دھڑکنیں
فضل و رحمت کے منڈیروں پر جلاتا ہَے چراغ
خوشبووں کے قافلوں کو راستہ دیتا ہَے تُو
رنگ برساتی ہَے تیرے حکم سے بادِ سحر
آئنے شبنم کے، پھولوں پر سجا جاتا ہَے کون؟
موتیوں کے ہار سبزے کو عطا کرتا ہَے تُو
تُو کبھی ہونے نہیں دیتا ہواؤں کو اسیر
آبخوروں میں سدا رہتی ہیں موجیں مضطرب
مشکلیں آسان کر دیتا ہے تُو انسان کی
منتظِر ہیں حکم تیرے کی ہوا کیا روشنی
تُو پرندوں کو ثنا گوئی کا دیتا ہَے ہنر
کشورِ دل میں سجاتا ہَے تُو ہی حرفِ ادب
یہ پہاڑوں کے خزانے تیری عظمت کی دلیل
یہ تری ساری خدائی رقص کے عالم میں ہے
زندگی اور موت کو رکھتا ہَے اپنے ہاتھ میں
اپنی ہر مخلوق میں خود بانٹتا ہَے رزق تُو
میری ہر اک سانس کا مالک بھی تو خالق بھی تُو
قرض کی آب و ہوا میں سانس لینا ہَے عذاب
کب تلک یا رب! مہاجن کی گرفتِ ناروا
کب تلک ہوتی رہیں گی پتھروں کی بارشیں
کب تلک اشکوں میں بھیگے گا بدن کا پیرہن
کب تلک محرومیوں کے تیر برسیں گے اِدھر
کب تلک جگنو چھپیں گے جھاڑیوں کے درمیاں
کب تلک سانسیں رہیں گی میرے قابو میں، خدا
کب تلک بچّے مرے حیرت سے دیکھیں گے مجھے
زندگی کے آئنوں کی دھند چھٹ جائے تمام
ہر پرندے کی زباں پر ہَے تری حمد و ثنا
پھول کی خوشبو بھی تیرے نام کی مالا جپے
رکھ مرے دستِ ہنر پر شعر گوئی کا جمال
میرے لفظوں کو ہوائے خلدِ طیبہ کا شعور
آبِ زم زم سے وضو کرتا رہے میرا قلم
مَیں ترے محبوبؐ کا ادنیٰ سا اک شاعر جو ہوں
یا خدا! زندہ مسائل سے مرا دامن چھڑا
با خدا! لاکھوں مصائب میں گِھرا رہتا ہوں مَیں
خوف کی چادر پڑی رہتی ہے حالِ زار پر
میرے پاکستان پر سایہ ترا قائم رہے
اس کے آنگن میں بھی خوشحالی کی اُترے چاندنی
تُو خدائے آسماں ہے مالک و مختار ہے
اپنے بندوں کو بلائے ناگہانی سے بچا
منتظِر ابرِ کرم کی خلقتِ مغضوب ہے
بندۂ مجبور حرفِ التجا ہَے آج بھی

چند روزہ زندگی کے لب کُشا لمحات ہوں
مجھ سے عاصی پر کرم کی بارشیں دن رات ہوں