آقا حضورؐ، خاکِ شفا کی ہوں بارشیں- دبستان نو (2016)
زخموں کی شال اوڑھ کے آیا ہوں یا رسولؐ
حرفِ دعا میں سرخ خراشوں کی ہَے پکار
ٹوٹا ہوا ہَے روح کا پندارِ آرزو
زخمی ہیں لفظ اور ہَے زخمی ورق ورق
زخموں سے چور چور پرندے خیال کے
کب تک اڑیں گے وادیٔ حسن و جمال میں
صدیوں کا اضطراب ہَے بادِ شمال میں
لاکھوں رکاوٹیں ہیں رہِ پائمال میں
اشکوں سے تر ہَے دامنِ حرفِ ادب، حضورؐ
آقاؐ، کھڑا ہوں آپؐ کے در پر بچشمِ نم
لکھّا ہوا لہو سے عریضہ ہَے ہاتھ میں
آنسو ردائے خوف میں چھپنے لگے حضورؐ
دم توڑنے لگے ہیں مرے حوصلے، حضورؐ
ٹوٹے ہوئے ہیں چاروں طرف آئنے، حضورؐ
آقا حضورؐ، بھیک کرم کی عطا کریں
آقا حضورؐ، خیمۂ صبر و رضا میں ہوں
آقا حضورؐ، شال ہوں زخموں کی تار تار
آقا حضورؐ، خاکِ شفا کی ہوں بارشیں
آقا حضورؐ، منتشر رہتی ہَے زندگی
آقا حضورؐ، بھوک ہَے میرے نصیب میں
آقا حضورؐ، بچوں کے بکھرے ہوئے ہیں خواب
آقا حضورؐ، ہو مرے احوال پر نظر
محرومیوں کی راکھ بدن کا ہَے پیرہن
آقا حضورؐ، ختم مصائب کا دور ہو
آقا حضورؐ، ختم مسائل کا دور ہو
ہر زخم میرا پھول کی صورت میں کھل اٹھے
سانسوں میں ہو گلاب کی خوشبو بسی ہوئی
زخموں کی شال میں ہَے مرا عہدِ بے نشاں
اس کے بدن پہ بھی ہیں خراشیں کئی ہزار
راہِ حیات میں ہے شبِ خوف گھات میں
گرد و غبار سے ہیں ہوائیں الجھ پڑیں
خیموں کی ہر طناب ہَے طوفان کا ہدف
اہلِ ہوس کے قبضۂ قدرت میں ہَے ہوا
اہلِ ہوس کے قبضۂ قدرت میں ہَے زمیں
اہلِ ہوس کے قبضۂ قدرت میں ہیں چراغ
اہلِ ہوس کے قبضۂ قدرت میں رزق ہَے
دریا بھی ان کے قبضۂ قدرت میں ہیں، حضورؐ
ہر سانس اِن کے اذن سے لیتا ہَے آدمی
رحمت لقب نہیں ہَے کوئی آپؐ کے سوا
آقا حضورؐ، آپؐ ہی ارض و سما کی جاں
آقا حضورؐ، آپؐ ہی ہیں روحِ شش جہات
آقا حضورؐ، آپؐ ہی عنوانِ روز و شب
آقا حضورؐ، آپؐ ہی مرکز علوم کا
آقا حضورؐ، آپؐ ہی مکتب کی آبرو
آقا حضورؐ، آپؐ ہی روشن چراغ ہیں
آقا حضورؐ، آپؐ ہی مرسل ہیں آخری
آقا حضورؐ، آپؐ ہی نائب خدا کے ہیں
آقا حضورؐ، آپؐ ہی محبوبِؐ کائنات
آقا حضورؐ، آپؐ ہی محبوبِؐ کبریا
انسانیت کے چہرے کو پھر سے اجال دیں
ہر قافلے کو خیر کی راہوں میں ڈال دیں