حصارِ خوفِ مسلسل میں دے رہا ہوں اذاں- دبستان نو (2016)
مرے خدا! یہ کہانی ہَے تیری بستی کی
حصارِ خوفِ مسلسل میں لوگ زندہ ہیں
حصارِ خوفِ مسلسل میں قید ہیں آنکھیں
حصارِ خوف میں گریہ کناں ہیں خوشبوئیں
حصارِ خوف میں دامن جلا ہَے پھولوں کا
حصارِ خوف میں رہتا ہَے آدمی کا خمیر
حصارِ خوف میں رہتا ہَے آدمی کا ضمیر
غبارِ فتنہ و شر کے ہیں سر پہ دستاریں
نفاذِ عدل کا امکان ہی نہیں باقی
قیامِ عدل کا موسم ہَے آسمانوں میں
متاعِ علم جہالت کی گرد میں گُم ہے
تُو پتھروں کو زبان و ادب سکھاتا ہے
فلک پہ چاند ستارے کریں ثنا تیری
چراغ دیدہ و دل میں تُو ہی جلاتا ہَے
تُو ہی تو عیب چھپاتا ہَے اپنے بندوں کے
تو ہی قلم کو سکھاتا ہَے گفتگو کا ہنر
تُو ہی تو اذنِ سفر روشنی کو دیتا ہَے
ترے ہی نام سے آغاز دن کا ہوتا ہے
ترے ہی حکم کا پابند ذرّہ ذرّہ ہَے
ترے ہی حکم سے چشمے رواں ہیں پانی کے
تو بادشاہِ ازل ہے تُو بادشاہِ ابد
ترے ہی نام کی تسبیح پڑھ رہی ہے زمیں
ترے ہی نام کی مالا جپے چمن میں صبا
ترا ہی نام منقش ہَے پتے پتے پر
خدایا! رزق کشادہ ہو میرے بچّوں کا
قدم تمام پڑیں ارتقا کی سیڑھی پر
ہر ایک خواب کی تعبیر بھی اِنہیں دینا
ہر ایک شام کے چہرے پہ ماہتاب اتریں
تمام خطّے ہیں میری زمیں کے بارانی
فقط حجاز ہَے شاداب موسموں کا امیں
حصارِ تشنہ لبی میں مرے کٹورے ہیں
پیاس میرا مقدر ہَے کتنی صدیوں سے
مرے خدا! مرے بچّوں کو رزق دے وافر
علومِ نو سے مرصّع ہوں روز و شب اِن کے
ہر ارتقا کی بلندی پہ ہو قدم اِن کا
خدایا! بھوک کے عفریت راکھ ہو جائیں
ہر ایک شخص کی بیٹی کے سر پہ چادر ہو
ہوائے جبر و تشدد گرے سمندر میں
گلی محلّے میں تیرے کرم کی بارش ہو
حروفِ نو سے چراغاں ہو مکتبِ جاں میں
کُھلے شعور کا موسم فضائے برہم میں
سکون و امن کے پرچم کُھلیں فصیلوں پر
افق افق پہ تشکر کی چاندنی برسے
عَلَم بلند ہو تحریکِ آدمیت کا
ہدف ہَے تند ہوا کا چراغِ نطق و بیاں
حصارِ خوفِ مسلسل میں دے رہا ہوں اذاں