حضورؐ آپؐ ہی داعی ہیں امنِ عالم کے- دبستان نو (2016)

حصارِ خوف میں سر بھی اٹھا نہیں سکتے
نفاذِ جَبْر و تشدد کے موسمِ غم میں
چراغ سارے بجھا کر خموش رہتے ہیں
حضورؐ، جرمِ ضعیفی کے مرتکب ہم ہیں
حضورؐ، قتل گہوں کے کُھلے ہیں دروازے
حضورؐ، آگ برستی ہَے رات دن ہم پر
زمین خون اُگلتی ہَے بے نواؤں کا
اداس، خوفزدہ بیبیاں ہیں خیموں میں
تمام کفر کے ہاتھوں میں ہاتھ ہیں، آقاؐ
حضورؐ، آپؐ کی اُمّت ہدف ہَے دشمن کا
حضورؐ، اُمّتِ سر کش کا حال کیا لکھّوں
شعور و عقل سے عاری ہیں رہنما اس کے
حضورؐ، آپؐ ہی قائد ہیں ہر زمانے کے
حضورؐ، آپؐ ہی رحمت ہیں کل جہانوں کی
حضورؐ، آپؐ ہی داعی ہیں امنِ عالم کے
حضورؐ، آپؐ ہی مرکز ہیں ہر ہدایت کا
حضورؐ، آپؐ ہی توقیرِ آدمِ خاکی
حضورؐ، آپؐ ہی مہمان عرش والے کے
حضورؐ، آپؐ ہی لوح و قلم کی رعنائی
حضورؐ، آپؐ ہی مقصود کل خدائی کے
حضورؐ، آپؐ ہی اللہ کی نعمتیں بانٹیں
حضورؐ، آپؐ ہی بزمِ ثنا کی تابانی
حضورؐ، آپؐ ہی محبوبؐ اپنے خالق کے
حضورؐ، آپؐ کے مجرم خدا کے مجرم ہیں
حضورؐ، کب سے کرپشن کی آندھیاں ہیں محیط
حضورؐ، جَبرِ مسلسل کی حکمرانی ہَے
حضورؐ، آج کا سورج بھی تیرگی کا حلیف
حضورؐ، چاند ستاروں میں روشنی ہی نہیں
حضورؐ، ظلم کے ہاتھوں میں ہتھکڑی بھی نہیں
حضورؐ، زر کی پرستش کے لوگ عادی ہیں
حضورؐ، ایک بھی پتہ نہیں درختوں پر
حضورؐ، صرف اندھیروں کا راج باقی ہے
خدا کے خوف سے عاری ہیں روز و شب اپنے
ہوس کی آگ نے سب کچھ جلا دیا، آقاؐ
حضورؐ، آپؐ کے نقشِ قدم کے سورج سے
وطن فروش قبیلوں کو روشنی ہو عطا
حضورؐ، گنبدِ خضرا کے سبز موسم سے
چمن میں لالہ و گل پر بہار آ جائے
ہوا کو سبز ملے اوڑھنی مرے آقاؐ
چراغِ عَدل و مساوات ہو ہتھیلی پر

حضورؐ، ابرِ کرم ہو عطا زمینوں کو
عطا ہو روشنی بھٹکے ہوئے سفینوں کو