اُسی کے نام سے سیّارگاں گردش میں رہتے ہیں- دبستان نو (2016)
اُسی کے نام سے کِھلتی ہیں کلیاں مرغزاروں میں
اُسی کے نام سے اُگتے ہیں ہونٹوں پر نئے لہجے
اُسی کے نام سے ملتی ہَے ہر موسم کو رعنائی
اُسی کے نام سے زرخیز رہتا ہے قلم میرا
اُسی کے نام سے ٹھنڈی ہوا چلتی ہَے صحرا میں
اُسی کے نام سے سورج نکلتا ہَے ثنا کرتے
اُسی کے نام سے بادِ صبا گلشن میں چلتی ہَے
اُسی کے نام سے خوشبو چمن میں رقَص کرتی ہے
اُسی کے نام سے ہر سانس لکھتی ہَے ثنا اُس کی
اُسی کے نام سے میری دعا کو پھول ملتے ہیں
اُسی کے نام سے چہکیں پرندے ان فضاؤں میں
اُسی کے نام سے شاخِ بریدہ پر گرے شبنم
اُسی کے نام سے دانائیاں تقسیم ہوتی ہیں
اُسی کے نام سے آنکھوں میں بینائی ہوئی روشن
اُسی کے نام سے لفظوں میں ہَے تفہیم کا موسم
اُسی کے نام سے تخلیق ہوتی ہَے سحر میری
اُسی کے نام سے پھولوں کو خوشبو کی ملی چادر
اُسی کے نام سے چمکا دھنک کا چاند سا چہرہ
اُسی کے نام سے قندیل روشن ہے دریچوں میں
اُسی کے نام سے تحریر لکھّو امنِ عالم کی
اُسی کے نام سے ہر روشنی برسی ہَے ذہنوں پر
اُسی کے نام سے رستے ہوئے روشن خلاؤں میں
اُسی کے نام سے آباد ہیں کوہ و دمن میرے
اُسی کے نام سے باقی حیاتِ چند روزہ ہے
اُسی کے نام سے ہے وَجد کے عالم میں ہر دھڑکن
اُسی کے نام سے کھیتوں میں ہریالی مچلتی ہَے
اُسی کے نام سے زندہ ہَے آنکھوں میں حرم اُس کا
اُسی کے نام سے سیّارگاں گردش میں رہتے ہیں
اُسی کے نام سے اُگتی ہیں فصلیں آرزوؤں کی
اُسی کے نام سے قائم مری آنکھوں کی بینائی
اُسی کے نام سے آنگن میں بچیّ کِھلکھلاتے ہیں
اُسی کے نام سے گندم کے ہر خوشے میں موتی ہیں
اُسی کے نام سے سر گوشیاں کرتے رہیں جگنو
وہی خالق وہی رازق وہی مالک جہانوں کا
محافظ کشتیوں کا ہَے محافظ بادبانوں کا