بارشوں کے شور میں کاغذ کی کشتی کیا کرے- دبستان نو (2016)
کسمپرسی کے ہے عالم میں مری عرضِ ہنر
خیمہ زن ہَے تیرگی میرے کھُلے دالان میں
ہر طرف محرومیوں کی راکھ ہَے اڑنے لگی
بادلوں میں چُھپ گیا ہَے کہکشاؤں کا ہجوم
روزنِ دیوار سے کوئی کرن اتری نہیں
بھوک کے جنگل تخیل کے چمن زاروں میں ہیں
روشنی کی ہر کرن کو کھا گئی کس کی نظر
آنسوؤں سے لکھ رہا ہوں روز و شب کی داستاں
خامشی دیوار و در سے کب تلک لپٹی رہے؟
چشمِ تر کتنے مقابر سے کرے گی دوستی
آرزوئیں دفن کر دوں بے بسی کی راکھ میں
گھپ اندھیروں کے سوا کچھ بھی نظر آتا نہیں
دیکھتا ہوں مَیں تصوُّر میں افق پر روشنی
تیری رحمت پر بھروسہ ہَے خدائے آسماں!
صبر کا دامن نہ میرے ہاتھ سے چھوٹے کبھی
میری ہر مشکل کو آساں کر خدائے مہرباں!
یاخدا! مشکل کشائی کی ملے مجھ کو نوید
میرے اشکِ لب کشا کی سجدہ ریزی ہو قبول
استقامت سے کھڑا رہنے کی تُو توفیق دے
یاخدا! تیری رضا کا ہر کوئی پابند ہے
دے مجھے صدقہ رسول پاکؐ کا، ربِّ عظیم!
یا خدا! اپنے حصارِ عافیت میں رکھ مجھے
بارشوں کے شور میں کاغذ کی کشتی کیا کرے
اے خدا! تیری رضا کے پھول آنگن میں کِھلیں
اَن گِنت صبر و تحمل کے مجھے لمحے مِلیں