کسی غارِ حرا کو ڈھونڈتا ہوں مضطرب ہو کر- دبستان نو (2016)
ابھی تک خواہشوں کے اَن گِنت خونی جزیروں پر
ہوس کا ہر درندہ گھات میں ہَے مَیں کدھر جاؤں
مسلسل ڈھول پیٹے جا رہے ہیں پیڑ کے نیچے
مَیں چُھپتا پھر رہا ہوں رات دن وحشی قبائل سے
مگر جائے اماں مجھ کو کہیں ملتی نہیں مولا!
مرے چاروں طرف کالی بلائیں رَقص کرتی ہیں
مجھے بے چین کر دیتی ہیں جب جنگل کی آوازیں
کسی غارِ حرا کو ڈھونڈتا ہوں مضطرب ہو کر
جہاں میرے پیمبرؐ کے نقوشِ پا فروزاں ہیں
جہاں سرکارؐ کے انفاس کی خوشبو مہکتی ہے
جہاں امن و سکوں کی سبز چادر میں ہَے ہر پتھر
جہاں زادِ سفر تقسیم ہوتا ہَے چراغوں میں
جہاں سرکارؐ نے قرآں کو سینے سے لگایا تھا
جہاں اقرا کی شاخوں پر گری تھی نور کی رم جھم
جہاں آقائے رحمت کے کرم کا تخت بچھتا ہے
جہاں بادِ خنک ہر زخم پر مرہم لگاتی ہَے
جہاں شاخوں پہ علم و آگہی کے پھول کھلتے ہیں
جہاں ارضِ جہالت کا نشاں باقی نہیں کوئی
جہاں تابندہ لمحوں کا ہجومِ شوق رہتا ہَے
جہاں خیرالبشرؐ کے نام کی تختی ہَے آویزاں
جہاں سے شہرِ مکّہ پر ہوئی انوار کی بارش
بچھا آؤں کسی دن مَیں بھی غارِ ثور میں دامن
جہاں صدیقؓ کی ایڑی پہ کرنیں ضبط کی برسیں
جہاں اشکوں نے جھک کر چوم لیں سرکارؐ کی آنکھیں
جہاں پر جاں نثاری کی نئی تاریخ کندہ ہَے
جہاں بہرِ سلامی آسماں جھک کر گزرتا ہے
جہاں سے نور کی خیرات ملتی ہَے ستاروں کو
جہاں ہر آئنہ مکڑی کے جالے سے ہَے شرمندہ
جہاں نیلی فضاؤں میں کبوتر رقص کرتے ہیں
جہاں کا ذرّہ ذرّہ نور و نکہت کا خزینہ ہَے
جہاں کا ذرّہ ذرّہ منتظر تھا کملی والے کا
جہاں پر اک نئی تہذیب کے آثار اُترے تھے
جہاں کے آسماں پر امن کی تحریر روشن تھی
جہاں زندہ ثقافت آسمانِ نور سے نکلی
جہاں سے دائمی امن و اماں کے قافلے نکلے
جہاں سے کفر کی کالی گھٹاؤں پر گری بجلی
جہاں سے عافیت کی اوڑھنی میں چاندنی اتری
جہاں رعنائیِ حرفِ ادب رہتی ہَے ہونٹوں پر
جہاں ابرِ کرم بھی دست بستہ عرض کرتا ہے
مَیں، آقاؐ آپؐ کے ہر راستے پہ کُھل کے برسوں گا
مَیں ہر ذرّے کو دوں گا غُسل زم زم سے مرے آقاؐ
درودوں کے لئے گجرے کروں گا آپؐ پر سایہ
مَیں ہجرت کے سفر میں آپؐ کا چوموں گا ہر رستہ
مَیں خوشبو کے چراغوں کو رکھوں گا رہگذاروں میں
درودِ پاک پڑھتی ساعتوں کے درمیاں مَیں نے
نبیؐ کی نعت لکھ کر آج بھی طیبہ میں بھیجی ہے
صبا آ کر مجھے احوال طیبہ کے بتائے گی
مَیں اپنی خوش نصیبی پر چراغاں گھر میں کرتا ہوں
خدا کا شکر کر اے شاعرِ گمنام! اب اُس نے
تجھے مدحت نگاری کا نیا انداز بخشا ہَے
تجھے توصیفِ ختم المرسلیںؐ کی تازگی دی ہَے
ترے ہر لفظ میں خلدِ نبیؐ کی چاندنی اترے
درودی رابطے اللہ کو بھی محبوب ہیں، ورنہ
خلاؤں سے پلٹ آتے دعاؤں کے یونہی، لشکر
ربوبیت کی ہلکی سی تجلّی میرے آنگن میں
الوہیت کی کرنوں سے بھرے افکار کا دامن
مَیں تیری عظمتوں کے سبز صحراؤں میں کھو جاؤں
مرے سجدے گداز و سوز کی لذت سے واقف ہوں
شعورِ بندگی دے کر مری بخشش کا ساماں کر
مجھے محفوظ رکھ ظلمت کی تند و تیز بارش میں
تجھے معلوم ہَے سب کشتیاں میری ہیں کاغذ کی
زمیں پر، یاخدا، جھوٹے خداؤں کی حکومت ہے
رعونت کی جو مسند سے کبھی اترے نہیں مولا!
مجھے معلوم ہَے جلتے جہنم کا یہ ایندھن ہیں
مجھے معلوم ہَے رزقِ زمیں ان کو بھی بننا ہَے
مگر جھوٹی اَنا کی قید میں رہتا ہوں صدیوں سے
مفاداتِ حقیقی سے شناسائی نہیں رکھتا
تُو میری ہر خطا سے درگذر کر کے، مصّلے پر
فضا سے مغفرت کے سرخ پھولوں کا گرا ریشم
ترے در پر ثنا کرتے ہوئے، یارب، مَیں آیا ہوں
حروفِ التجا میں آنسوؤں کے پھول لایا ہوں