پرندے زخم کھا کھا کر مرے آنگن میں گرتے ہیں- دبستان نو (2016)
مَیں حرفِ التجا بن کر تری چوکھٹ پہ آیا ہوں
مرے دامن میں اشکوں کے سوا کچھ بھی نہیں، مولا!
مرا ہر ایک آنسو پیرہن ہے میرے لفظوں کا
ہزاروں سسکیاں لپٹی ہوئی ہیں میری آہوں سے
ہزاروں ہچکیاں سمٹی ہوئی ہیں التجاؤں میں
دعائیں بھی پرِ پرواز کھو بیٹھی ہیں جنگل میں
(قلم محرومیوں کی راکھ کو کیسے لکھے شبنم)
در و دیوار پر کائی اگی ہے نارسائی کی
اداسی گھر کے دروازوں پہ کب تک دستکیں دے گی
چراغوں کو ہواؤں سے الجھنے کی تُو ہمت دے
مری اولاد کو دے استقامت، حوصلہ، جرأت
مسلسل لڑتے رہنا ہے انہیں شب کے اندھیروں سے
انہیں تسخیر کرنا ہے پہاڑوں کی بلندی کو
یہ کب تک بھوک کی فصلیں اگائیں اپنے کھیتوں میں
(پرندے زخم کھا کھا کر مرے آنگن میں گرتے ہیں)
تری رحمت کے بادل چار جانب سے امڈ آئیں
وسیلہ پیش کرنا ہے ترے دربار میں اُنؐ کا
جنہیں اذنِ شفاعت دے گا تُو محشر کے میداں میں
وہی ہیں مرسلِؐ اوّل، وہی ہیں مرسلِؐ آخر
مجھے بارِ دگر طیبہ میں پہنچا دے مرے مولا!
مرے آنگن کی چڑیوں کو سکوں کی زندگی دے دے
گلی میں شور بچّوں کا سنائی دے تسلسل سے
مرے بیٹے مدثر پر کرم کی بارشیں کر دے
خدایا! سب کے کھیتوں پر ترا ابرِ کرم برسے
خدایا! ریگ زاروں کو خنک پانی کے چشمے دے
خدایا! غرق ہو ہر تیرگی گہرے سمندر میں
مَیں حرفِ التجا بن کر تری چوکھٹ پہ آیا ہوں
دعائیں مانگتے بچوں کے آنگن میں چراغاں کر
پیمبرؐ کے وسیلے سے انہیں خوشبو بداماں کر