درِ حضورؐ تجلی کا آئنہ بردار- دبستان نو (2016)
قلم ادب کی ردائے صدف میں رہتا ہَے
حروف دَجد میں آ کر درود پڑھتے ہیں
ہتھیلیوں پہ مقدّر رقم زمانوں کا
پسینہ آپؐ کا خوشبو کی راجدھانی ہَے
نگار و نقش بناتی ہوئی سیہ آنکھیں
قیامِ امن کا ہر فلسفہ عمل میں تھا
یقین و عزم کی قندیل تھی ہتھیلی پر
ہجومِ شوق مسلسل قدم قدم پر تھا
تمام حُسن زمین اور آسماں کا، ریاضؔ
درِ حضورؐ میں سمٹا ہوا ازل سے ہَے
نبیؐ کا قلبِ منورّ ہَے امن کا مرکز
سحاب آپؐ پہ سایہ خنک لٹاتا ہے
یہی ہَے ذاتِ مقدّس جمال کی مظہر
یہی ہَے ذاتِ مقدّس علوم کا منبع
مہ و نجوم بھی، جِنّ و بشر بھی محشر تک
دیارِ عشق سے خیرات کے رہیں طالب
یہ اس لئے کہ فضائے بسیط میں ہر پَل
کرن ادب کی اسی بارگہ سے ملتی ہے
درِ حضورؐ: مرقع ہَے عشق و مستی کا
درِ حضورؐ: اجالوں کا مرکز و محور
درِ حضورؐ، ہَے شاداب ساعتوں کا امیں
درِ حضورؐ، پہ پروردگار کا سایہ
درِ حضورؐ، سے کیا کچھ نہیں ملا ہم کو
درِ حضورؐ: تجلّی کا آئنہ بردار
سفر سحر کے اجالوں کا، نقشِ پا سے ہے
نقوشِ پا پہ ستارے ادب سے جھکتے ہیں
کبھی نجوم کا دامن تہی نہیں رہتا
صبا کی سبز چنریا میں پھول کھلتے ہیں
تمام خوشبوئیں طشتِ طلب اٹھا لائیں
انہیں بھی جھولیاں بھر بھر کے آپؐ دینگے گلاب
گلاب جن پہ وثیقہ لکھا ہَے وحدت کا
گلاب جن پہ ہَے تحریر بندگی کا شعور
گلاب جن کا کوئی دوسرا بدل ہی نہیں
درِ حضورؐ پہ رہتا ہَے خوشبوؤں کا گروہ
درِ حضورؐ ہَے رعنائیوں کے جھرمٹ میں
درِ حضورؐ پہ بندے جو سب خدا کے ہیں
بڑے خلوص سے جھک کر سلام کرتے ہیں
ریاض، آپؐ کی چوکھٹ کو چوم لو بڑھ کر
ریاض، گنبدِ خضرا کی دلکشی کو سلام
ریاضؔ، سیدِ ساداتؐ پر درود پڑھو
ریاضؔ، مرکزِ انوار ہَے یہی چوکھٹ
سلام سیّدِ ساداتؐ، اُمّتی کا سلام
سلام سرورِ کونینِؐ، ہر کسی کا سلام