ہوائوں سے اگر سر گوشیاں کرنے کی عادت ہے- دبستان نو (2016)
ہواؤں سے اگر سرگوشیاں کرنے کی عادت ہَے
تو اُن سے پوچھنا منظر درِ آقاؐ کا کیسا تھا
مواجھے میں کھڑے عُشّاق تصویرِ ادب بن کر
زبانِ اشکِ تر میں حالِ دل کیسے سناتے تھے
حروفِ مرمریں ہونٹوں پہ کیسے کپکپاتے تھے
سرِ مژگاں ستارے کس طرح سے جھلملاتے تھے
فرشتے کس طرح محفل درودوں کی سجاتے تھے
فضاؤں میں سلاموں کی دھنک کیسے چمکتی تھی
کرم کی رم جھمیں اطراف میں کیسے برستی تھیں
صبا کے ہاتھ پر رکھ کر جو آنسو مَیں نے بھیجے تھے
وہ دیوارِ مدینہ پر چراغِ آرزو بن کر
بصد عجز و ادب کیسے کرم کے پھول چنتے تھے،
ہواؤں سے اگر سر گوشیاں کرنے کی عادت ہے
تُو اِن سے پوچھنا کس حال میں طیبہ کے بچّے تھے
ادب کے ہر تقاضے پر عمل کرتے ہوئے دن بھر
مدینے کے گلی کوچوں میں کیسے شور کرتے تھے
ہواؤں سے اگر سرگوشیاں کرنے کی عادت ہَے
تو ان سے پوچھنا کوہِ اُحد کی رہگذاروں میں
نقوشِ سیّدِ لولاکؐ کے لاکھوں نشاں ہوں گے
نبیؐ کے جاں نثاروں کی مہک ہو گی فضاؤں میں
تو ان سے پوچھنا خوشبو چراغِ نُطقِ جاں کیسے
ہر اک زائر کے ہاتھوں پر قرینے سے سجاتی تھی
تو ان سے پوچھنا کیسے نوائیں باوضو ہو کر
حضورِ حُسن اپنے دکھ بیاں کرتی تھیں پہروں تک
قلم فرطِ ادب سے کس طرح آنسو بہاتا تھا
دعائیں چوم کر دہلیزِ پیغمبرؐ کو ہونٹوں سے
فلک کی سمَت کیسے جھوم کر پرواز کرتی تھیں
پذیرائی کسی کے آنسوؤں کو بھی ملی ہو گی
ہواؤں سے اگر سرگوشیاں کرنے کی عادت ہَے
تو ان سے پوچھنا خوشبو مواجھے کی فضاؤں میں
نئی نعتوں کے مضموں کس ادب سے پیش کرتی تھی
مناظر الوداع ہونے کے کیسے تھے مواجھے میں
کہانی ہجر کی کیسے سناتے تھے وہاں آنسو
ادب سے ہچکیاں بھی لب مقفل اپنے رکھتی تھیں
کبوتر گنبدِ خضرا کے کیسے جھک کے اڑتے تھے
مدینے کی گزر گاہوں میں کیسے پھول کھلتے تھے
دھنک کے رنگ کیسے آسمانوں سے برستے تھے
ہواؤں سے اگر سرگوشیاں کرنے کی عادت ہے
تو کہنا، اُنؐ کی چوکھٹ پر مری آنکھیں سجا دینا
مرے حالِ پریشاں کی کہانی سب سنا دینا