حضورؐ آپ کا شاعر ہدف ہَے سازش کا- دبستان نو (2016)
حضورؐ، آپؐ کا شاعر ہدف ہَے سازش کا
فلک کے چاند پہ تھوکا ہَے شب گزیدہ نے
غلیظ لفظ ہی اس کی زباں سے نکلے ہیں
کہ اس کے من کی غلاظت گلی میں بکھری ہَے
حصارِ خوف میں بچیّ درود پڑھتے ہیں
کہ اس کے شر سے، تحفظ کی مانگتے ہیں ردا
کہ اس نے من کے اندھیرے اگل دئیے ہیں، حضورؐ
غبارِ صبر و رضا میں مرا قبیلہ ہے
چھڑی، یہ ہاتھ میں، تضحیک کی بھی رکھتا ہے
انا پرست ہَے، بے حس ہَے، یہ زمانے کا
ضمیر اس کا ازل سے ہَے مردہ خانے میں
یزیدِ وقت ہَے، بہتان باندھتا ہَے، حضورؐ
ریا و بغض کا ملبہ ہَے اس کے کندھوں پر
حسد کی زرد چٹانیں ہیں اس کے سینے میں
حضورؐ، اپنے مفادات کا یہ قیدی ہے
کبھی یہ اترا نہیں مسندِ تکبّر سے
غضب خدا کا کہ خوفِ خدا نہیں رکھتا
ذلیل ایسا ہَے قدرت کے کارخانے میں
کہ اس کے ذہن میں پاتے ہیں پرورش فتنے
حضورؐ، اس کی زباں پر رقم ہیں انگارے
حضورؐ، شخص یہ گستاخ اپنی ماں کا ہَے
فریب و دجل کے جلتے مکاں میں رہتا ہے
بدن پہ اس کے رعونت کی سرخ چادر ہے
حضورؐ، آئنوں سے خوف کیوں نہ کھائے گا
یہ اپنا چہرہ بھی پہچاننے سے منکر ہے
نفاذِ عدل کا مفہوم جانتا ہی نہیں
لہو ہَے دامنِ صد چاک پر امانت کا
شعور و فکر سے عاری دماغ رکھتا ہَے
یہ اپنی جھوٹی اَنا کے جلا رہا ہَے چراغ
مرے لہو میں ملوّث ہَے اس کا دستِ عتاب
یہ شخص قلبِ سیہ کا ہَے مالک و مختار
منافقت کا اندھیرا ہَے اس کی آنکھوں میں
کہا جو اس نے وہ سب جھوٹ کا پلندہ ہے
جبین اس کی ہَے سفاک ساعتوں کی چٹاں
ابھی سے نارِ جہنَّم سے آشنائی ہے
حروفِ صدق و صفا کا یہ شخص قاتل ہے
مقیم اس کے ہَے گھر میں حماقتوں کا جلوس
مری زمین پر ابلیس کا ہَے کارندہ
مکاں بناتا ہَے یہ بے حسی کے جنگل میں
لہو کے سارے روابط کو توڑ بیٹھا ہے
حضورؐ، اس کی جبلّت میں جرم شامل ہے
دکان اس کی سیہ کاریوں کا مرکز ہے
فتور کب سے سمایا ہوا ہَے سوچوں میں
گرفتِ شب میں ہَے اس کے عمل کا ہر حصّہ
حضورؐ، ظلمتِ شب کا گماشتہ ہَے یہ
حضورؐ، اس کے ہَے اعصاب پر جنوں طاری
حضورؐ، اس کو عطا ہو شعور کی مَشعل
حضورؐ، اس کے بھی دامن میں چاندنی مہکے
تمیز کرنے لگے خیر و شر کے لمحوں میں
کِھلیں سکون کی کلیاں بھی اس کے آنگن میں
اسے بھی ماں کی دعائیں نصیب ہو جائیں
حضورؐ، میرے قبیلے کو عافیت کی نوید
حضورؐ، خیر ہو معصوم میرے بچّوں کی
ردائے امن کا سر پہ خنک سویرا ہو
سروں سے، ساری بلائیں، حسد کی ٹل جائیں
حضورؐ، جادۂ رحمت پہ کارواں اترے
حضورؐ، آپؐ کا شاعر ہدف ہَے سازش کا
مرا لہو ہی تو میرے لہو کا پیاسا ہَے
حضورؐ، ہاتھ میں میرے یقیں کا کاسہ ہے