نئے دن کا سورج- زر معتبر (1995)
یا خُدا، میرے لفظوں کو عشق و
محبت کی سرشاریاں کر عطا
یا خُدا، میرے نطق و بیاں کو ثنائے محمدؐ کی توفیق دے
تمدن کی ویران آنکھیں ہراساں
کہ دم توڑتی ساعتوں کے کھنڈر
اپنے ملبے کی تقدیس پر غم زدہ
روشنی کے لیے معبدوں میں کئی ایک صدیوں سے انسانیت کا لہو جل رہا تھا
آدمی اپنی پہچان تک کھو چکا تھا
اور حوا کی بیٹی کیپاکیزہ، اُجلے
بدن پر صلیبوں کی فصلیں اُگائی گئی تھیں
یہ کچلے ہوئے جسم اپنی ہی قبروں کے پتھر بنے تھے
آنسوؤں سے مرصع تھی جھالر زمیں کی
بے نوا زندگی کے در و بام پر تھی اُداسی مسلط ہزاروں برس سے
عارضِ وقت پر ان جلے موسموں کے نشاں دیکھ کر
اَبر آتا تھا لیکن برستانہ تھا
چھاگلیں ریگِ صحر سے لبریز تھیں
اور آدم کے خوں میں ملوث یہ تہذیب کی اُنگلیاں
شغلِ تنویم میں پھر بھی مصروف تھیں
دم بحود عہد ناموں کے اوراقِ خستہ
مصحفِ حرف تفہیم کے نور سے نابلد
آدمیت کے شفاف اُجلے بدن پر بُجھی راکھ کے پیرہن
دھڑکنیں وقت کی منجمد
اور ساکت رگوں میں یقیں کے لہو
خشک پتوں، جلی ٹہنیوں کو ہوا
نے دلاسا دیا
کہ اک سیلِ رحمت نویدِ بہاراں لیے آرہا ہے
عرشِ اعظم پہ مژدہ سنایا گیا اب زمین کا مقدّر سنورنے کو ہے
کل جہانوں کی قسمت بدلنے کو ہے
منتظر جِن و اِنسان و حُور و ملائک
ازل سے ابد تک زماں منتظر
زمِیں منتظر، آسماں منتظر
قافلے خیمہ زن کہکشاؤں کے ہر سُو
کہ تخلیق اِن کی اِسی ایک لمحے کی خاطر ہوئیتھی
سرزمینِ عرب اپنے بخت ہمایوں
پہ مسرور تھی
دُعائے خلیل اور نویدِ مسیحا کی مقبولیت کی گھڑی آگئی
آسمانوں نے بڑھ کر زمیں کے قدم چھو لئے
ثنائے محمدؐ میں مصروف ارض و سما
نغمۂ جانفزا، مصطفیٰؐ، مصطفیٰؐ
قطاریں ملائک کی صلِّ علیٰ کہہ رہی تھیں
صبا ورد اسمِ محمدؐ کا کرنے لگی
شفق نے شہادت کی اُنگلی اُٹھائی
حریمِ رسالت کے اُجلے جھروکوں سے سورج نکلتا چلا آ رہا تھا
آسمانوں زمینوں کی پوشاک بدلی گئی
اور کائی بھرے منجمد پانیوں میں تموّج کے آثار پیدا ہوئے
ریگ زاروں سے کرنوں کا پھیلا کے دامن
ستاروں نے خیرات مانگی ضیا کی
ظلمتِ شب کے معبد میں صدیوں پُرانی رعونت کی تہذیب ماتم کناں تھی
صدا غیب کی وادیوں سے یہ آئی
یہ انسانِ کامل ہے اِس کے نقوشِ قدم پر عبادت کریں گے فرشتے
روایات کے جلتے بجھتے چراغوں سے کہہ دو کہ بُجھ بھی چکیں
نئے دن کا سورج اُفق پر فروزاں ہوا ہے
نئے دن کا سورج اُفق پر فروزاں رہے گا
امانت، دیانت کا نورانی پیکر
محبت کے موتی لٹاتا رہا
فراست کے دریا بہاتا رہا
پھر ہوا یوں کہ غارِ حرا نالۂ نیم شب سے مہکنے لگی
اور فاران کی چوٹیاں انقلاب آفریں زلزلوں سے لرزنے لگیں
نئے دِن کے سورج نے ہر شے کو رخشندگی بخش دی تھی
وہ سورج کہ جس کی مقدّس شعاعیں
ہیں آدم کی نسلوں کے زخموں کا مرہم
وہ سُورج کہ انسان کی عظمتوں کا نشاں
وہ سورج کہ جس کا ضیا پاش چہرہ اُفق تا اُفق ہے دلیلِ سحر
وہ سورج کہ گلشن میں شبنم کی ٹھنڈک
وہ سورج کہ سہمی ہوئی زرد شاخوں کو پیغامِ تخلیقِ نو دے گیا
شفاعت کا وعدہ ہے پوشاک اُس کی
محبت کا پیغام ہے اُس کی مشعل
بیاں اُس کے دربارمیں غرقِ حیرت
قلم اُس کی سرکار میں سرنگوں ہے
وہی ابتدا روشنی کے سفر کی
وہی انتہا روحِ انسانیت کی
وہی منتہا ہر صدی کے بشر کا
وہ اُمّی کہ جس نے مدوّن کیا
پھر صحیفوں کی انمول آیات کو
وہ اُمّی کہ جس کی زباں کا ہر اک لفظ قانونِ فطرت کی میزان ہے
وہ اُمّی کہ جس کے نقُوشِ قدم کی عبارت ہی دانش کی معراج ہے
وہ اُمّی کہ جس نے لبوں پر پڑے قول سارے ہٹا کر
سسکتے ہوئے حرف کی لاج رکھ لی
وہ اُمّی کہ جس نے
صحائف کی ہر اک بشارت کو تجسیم کر کے نئے ضابطوں کو مصور کیا
محمدؐ، محمدؐ، محمدؐ، محمدؐ
صبا اُس کا اسمِ مبارک نہ لے تو شفق روشنی کے پروں کو نہ کھولے
محمدؐ، محمدؐ، محمدؐ، محمدؐ
یہی نام وردِ زبانِ قلم
یہی نام عرشِ معظم کی زینت
یہی نام ٹوٹے دلوں کا سہارا
یہی نام سرمایہ دو جہاں ہے
یہی نام توقیرِ آدم کا باعث
یہی نام کونین کی آبرو ہے
یہی نام عظمت کی ہر اک بلندی کو تسخیر کرتا رہا ہے
یہی نام لولاک کی خلعتوں میں ازل سے ابد تک معطر رہے گا
یا نبیؐ، بے ردا جسم ہیںمنتظر
اب زمانے ہوئے
طاقِ نسیاں پہ رکھی پُرانی کتابوں کے بوسیدہ اوراق کی روشنی میں
عقیدوں کی محراب جھکنے لگی ہے
ہمارا مقدّر سیہ ساعتوں کی نحوست
بے جہت منزلوں کا سفر
روشنی بھی اندھیروں کی پازیب ہے
یانبیؐ، بے نوا باندیوں کے بدن وقت کے ناخنوں کی خراشوں سے
پہچان کی منزلوں کا نشاں بن گئے ہیں
حکمِ اِن کو سنایا گیا ہے صلیبِ بدن پر یہی
زندگی اپنے اشکوں کی دہلیز پر آخری ہچکیوں کی نمائش کرے
یانبیؐ، نسلِ آدم کے خونخوار وحشی بدن کی زمیں سے لہو کے صدف مانگتے ہیں
تِریؐ اِن کنیزوں کے ادھڑے ہوئے جسم پھر تجھ کو فاران کی چوٹیوں سے
صدا دے رہے ہیں
خشک ہونٹوں نے مٹی کو پگھلا دیا ہے
جاں بلب ہیں یہ معصوم سی بچیاں
حرف سہمے ہوئے ہیں رسول اممؐ!
شب کے مدقوق چہرے پہ بکھری کثافت کے پس منظروں میں
صداقت ہراساں کہ کہرے کی چادر
میں تشکیک کے اژدہا
سبز آنکھوں کارس چوستے ہیں
ہم تِریؐ رحمتوں کے تسلسل کے قائل جو ہیں یانبیؐ اس لیے
تیرےؐ در پر مجسم سوالوں کی شکلوں میں ہیں سرنگوں
دستِ شفقت ہمارے سروں پر بھی سایہ کرے
ہمیں آگہی کی بشارت ملے
یانبیؐ، بے نوا باندیوں کے بدن منتظر ہیں کہ رحمت کی اُن کو گھٹا ڈھانپ لے
یانبیؐ بے ردا جسم ہیں منتظر
یانبیؐ بے ردا جسم ہیں منتظر
اِن کو زینبؓ کی چادر کا صدقہ ملے
اجنبی راستوں پر نحوست کی چٹیل
چٹانوں کی پرچھائیاں
دام پھیلا رہی ہیں کہ بھٹکے ہوئوں کے یہ اندوختے
رہزنوں کے تصرف میں کب آئیں گے
یانبیؐ، بے صدا ہونٹ ہیں منتظراب تِرؐے نُطق سے
بانجھ لفظوں کی سڑتی ہوئی فصل کو
اذنِ گویائی کا حُسن بھی ہو عطا
آدمی، آدمیت میں تحریف کا مرتکب ہو رہا ہے
اثاثے جہالت کے آدم کی نسلوں میں پھر منتقل ہو رہے ہیں
کوئی روشنی کی کرن اب
شبِ آگہی کی سحر ُدور ہے
مسافر رواںہیں کہ شاداب لمحوں
کی اَن دیکھی منزل قدم دو قدم ہے
مگر ہر طرف نیم تاریک سائے ہیں شب خون کے
ہوا منزلوں کے نشاں سب مٹانے میں مصروف ہے
آدمی ڈگمگاتی ہوئی رہگذر پر توازن کے جوہر سے محروم ہے
زندگی جیسے ٹوٹی طنابوں سے چمٹی ہوئی پَرشکستہ تمناؤں کے قافلے
یاسیت کے بھنور میں ہمارے سفینے کے اے ناخدا،
جسم دونیم، شق القمر کی مقدّس حقیقت کا انجام پھر دیکھنا چاہتا ہے
معجزے کی گھڑی ہے کہ اُمت نے اپنے تشخص کے خود ساختہ لیبلوں کو
کُھرچنے کا آغاز بھی کر دیا ہے۔
اور نادیدہ سمتوں کی پہچان کا مرحلہ طے فقط تیرؐی خوشبو کرے گی
ہمیں یانبیؐ، اپنے نقشِ کفِ پا کی تابندگی بخش دے