ظہورِ قدسی- زر معتبر (1995)
دَم بخود آسمانوں کے چہرے پہ
بِکھری ہوئی چاند کی کونپلیں
اب شبِ ظلم کے زخم خوردہ زمانوں کو اُجلی سحر کی بشارت بھی دینے لگی ہیں
وقت گہرے تبسم کے گرتے ہوئے پانیوں میں جواہر کے ریزے پرونے لگا ہے
معبدِ جاں کے اضام سجدے میں گِر کر خُدا کی بزرگی کا اعلان کرنے لگے ہیں
شاخِ گُل پرحیاتِ فسردہ کا ادھڑا ہوا جسم انگڑائیاں لے رہا ہے
یہ کون آر ہا ہے
یہ کون آرہا ہے
دیارِ نبوت کی اونچی فصیلوں پہ آیات کی بارشیں نور کے بیل بوٹے بنانے لگی ہیں
حریمِ شفاعت کی چلمن میں نکھری ہوئی ساعتوں کو
درُودوں کے پرچم عطا ہو رہے ہیں
نمو کے جزیروں میں جذبات کے موسموں کو صدا کے نئے پیرہن مل رہے ہیں
یہ کون آرہا ہے
یہ کون آرہا ہے
آسماں کِس کے قدموں کی مٹی کو کشکولِ جاں میں سمیٹے ہوئے ہے
کہکشاںکس کے نقشِ کفِ پاکا جُھومر سجا کر سرِ رہگذارِ فلک رقص کرنے لگی ہے
اُفق تا اُفق کس کی آمد پہ رحمت کے اُجلے دیے جل رہے ہیں
دھنک کی سبھی رنگ کس کے لئے حرفِ تازہ کی کونپل پہ مہکے ہوئے ہیں
صحائف کے اوراقِ تشنہ پہ لکھی عبارت کی تکمیل ہونے لگی ہے
جمالِ قلم اور حُسنِ تصور کا بُرجِ یقیں میں ملن ہو رہا ہے
یہ کون آرہا ہے
یہ کون آرہا ہے