ازل سے طوقِ غلامی ہَے میری گردن میں- دبستان نو (2016)
اداس شام کا منظر عجیب منظر ہے
بدن یہ آج بھی محرومیوں کا مدفن ہے
سگانِ کوئے مدینہ سے دوستی کر لوں
نفَس نفَس میں مرے عِجز کی جلی مشعل
ورق ورق پہ ہَے نسبت کے حاشیے کا جواز
ورق ورق پہ سجی ہَے درود کی محفل
محیطِ ارضِ بدن ہَے بہار کا موسم
درخت، چاند، دھنک، روشنی، ہوا، شبنم
رسولِ پاکؐ کے قدموں پہ سب نثار کروں
ازل سے طوقِ غلامی ہَے میری گردن میں
ازل سے اشکِ ندامت سلگتے رہتے ہیں
ازل سے دامنِ صد چاک ساتھ ہَے میرے
ردائے عشق کا کب پیرہن بدلتا ہوں
چراغ بن کے مَیں شہرِ عمل میں جلتا ہوں