حضورؐ ،نئی بیاضِ نعت لے کر حاضر ہوں- دبستان نو (2016)
’’غزل کاسہ بکف‘‘ لایا ہوں اِمشب یا رسول اللہ
ہر اک حرفِ ثنا جس کا وضو کے پیرہن میں ہے
مرے انمول لمحوں کی کہانی درج ہَے اِس میں
غلامی کی ردا پر مَیں نے بھی آنسو سجائے ہیں
ہر اک حرفِ ادب میں چشمِ تر کے آبگینے ہیں
ہزاروں دست بستہ آرزوئیں ساتھ ہیں میرے
مرے اندر کا موسم بھی درودِ پاک پڑھتا ہے
مرے اندر کی بینائی کے دونوں ہاتھ پھیلے ہیں
مرے اندر کی رم جھم میں ستارے رقص کرتے ہیں
مرے اندر کا ہر لمحہ کرم کے پھول چنتا ہَے
جوارِ گنبدِ خضرا میں میرا بھی نشیمن ہے
نبی جیؐ، خوشبوئیں بہر سلامی ساتھ آئی ہیں
چناب و جہلم و راوی کے تشنہ ہونٹ لایا ہوں
مرے دریاؤں میں پانی نہیں ہَے یا رسول اللہ
نبی جیؐ، آبخورے منتظر کالی گھٹا کے ہیں
نبی جیؐ، میرے مشکیزے کئی تیروں کی زد میں ہیں
اداسی کی نئی فصلیں کھڑی ہیں میرے کھیتوں میں
’’غزل کاسہ بکف‘‘ آقاؐ، ادب کا شامیانہ ہے
جہاں مصروف ہیں آنکھیں دیے شب بھر جلانے میں
جہاں رعنائیِ گُل کو نہیں فرصت نمایش کی
مصّلے پر غزل سجدے میں رہتی ہَے مرے آقاؐ
مسلسل با وضو رہتی ہَے ساون کے مہینے میں
یہ ساون کا مہینہ َان گِنت صدیوں پہ پھیلا ہے
’’غزل کاسہ بکف‘‘ میں روشنی ہَے شامِ مدحت کی
قلم اعلان کرتا ہَے خدا کی حاکمیت کا
الوہیت اُسی کی ہَے زمینوں آسمانوں میں
ربوبیت کی مشعل ذرّے ذرّے میں فروزاں ہے
غزل میری مسلسل سجدہ ریزی کا وظیفہ ہے
’’غزل کاسہ بکف‘‘ ہَے شہرِ مکّہ کے اجالوں میں
’’غزل کاسہ بکف‘‘ ہَے شہرِ طیبہ کی ہواؤں میں
’’غزل کاسہ بکف‘‘ مدحت نگاری کا قلمداں ہے
’’غزل کاسہ بکف‘‘ میں اشکِ ہیں مرحوم اُمّت کے
’’غزل کاسہ بکف‘‘ میں نور و نکہت کے خزانے ہیں
’’غزل کاسہ بکف‘‘ میں سیرتِ اطہر کی خوشبو ہے
مری مدحت نگاری کا پڑاؤ آٹھواں یہ ہَے
ہوائے عجز نے اس کو اٹھا رکھا ہَے ہاتھوں میں
نصابِ عشق بھی شامل ہَے میرے استغاثے میں
نئے اسلوب کی ہَے روشنی اس کے دریچوں میں
(مری سب آخرِ شب کی دعاؤں کو ملے خِلعت)
چراغِ آرزو روشن ہیں اوراقِ تمنّا پر
’’غزل کاسہ بکف‘‘ اُنؐ کے کرم کی داستاں بھی ہے
نبی جیؐ، استغاثے کا انوکھا رنگ ہَے اس میں
بجز اشکِ ندامت مَیں جو لاتا بھی تو کیا لاتا
سند مجھ کو غلامی کی عطا ہو یا رسول اللہ
بیاضِ نعت میری لب کُشا ہو یا رسول اللہ