دشمنِ انسانیت کیا ہم سے چھینے گا ہلال- دبستان نو (2016)
آپؐ کے ہوتے ہوئے کوئی کچل جائے ہمیں!
لُوٹ لے فکر و عمل کی کہکشاں کے قافلے
لُوٹ لے ہم سے متاعِ عشق کے لیل و نہار
مخزنِ اسلاف کی دیوار میں ڈالے شگاف
لُوٹ لے سجدوں کی بے تابی کا حُسنِ لازوال
لُوٹ لے آلِ نبیؐ کی نوکری کی آرزو
لُوٹ لے صدق و صفا کے آبگینوں کی چمک
لُوٹ لے جود و سخا کے آئنوں کی دلکشی
امن کی سب فاختاؤں کو پسِ زنداں کرے
گل کرے زندہ ضمیروں کے چراغِ جستجو
لُوٹ لے ایمان کی دولت کا قصرِ دلربا
لُوٹ لے زر تاب لمحوں سے ردائے عافیت
لُوٹ لے تسخیرِ آفاقِ نظر کا ولولہ
غیر ممکن غیر ممکن، غیر ممکن ہے، حضورؐ
آپؐ کے ہوتے ہوئے کوئی کچل جائے ہمیں!
چھین لے افکارِ تازہ کی سروں سے گٹھڑیاں
ضبط کر لے سر زمینِ پاک کا پانی تمام
ضبط کر لے شہرِ اخلاق و ہنر کی کنجیاں
ضبط کر لے سبز بوندوں کے ہجومِ نور کو
چھین لے اوصافِ پاکیزہ کا دامانِ جمال
چھین لے امن و اماں کی خوئے دلکش کے صدف
چھین لے کھیتوں کی ہریالی کا حسنِ ناتمام
چھین لے ایثار کے جذبات کے سرو و سمن
چھین لے ہم سے شہادت کی متاعِ بے بہا
چھین لے اصحابؓ کے دامانِ عظمت کے گلاب
چھین لے صدیقِ اکبرؓ کی رفاقت کا نصاب
چھین لے فاروقِ اعظمؓ کی تمناؤں کے پھول
چھین لے عثمانؓ کی شرم و حیا کے آفتاب
چھین لے مولا علیؓ کے عزمِ راسخ کا کمال
چھین لے ہم سے شعورِ کربلا کی روشنی
چھین لے ہم سے عبادت کی ردائے محتشم
چھین لے توحیدِ ربیّ کے چراغوں کی بہار
چھین لے ہم سے سجودِ آخرِ شب کا گداز
چھین لے ہم سے اخوّت کا شبستانِ حیات
چھین لے اخلاص کی رعنائیوں کا ہر صدف
غیر ممکن، غیر ممکن، غیر ممکن ہَے، حضورؐ
آپؐ کے ہوتے ہوئے ہم عظمتوں کی ہیں مثال
دشمنِ انسانیت کیا ہم سے چھینے گا ہلال!