حصارِ جبرِ مسلسل میں سانس لیتا ہوں- دبستان نو (2016)
برہنہ پا ہوں مصائب کی آگ میں تنہا
برس رہی ہَے مرے سر پہ دھوپ کی بارش
سمٹ رہا ہَے حقائق کا کرب گلیوں میں
کتابِ دل کے ورق پر ہیں حرف افسردہ
ردائے اشک میں لپٹا ہوا ہَے میرا قلم
حضورؐ، زندہ مسائل نے گھیر رکھّا ہے
اداسیوں کا پڑاؤ ہَے میرے آنگن میں
دُکھوں کی راکھ برستی ہَے قریۂ جاں میں
مَیں التجاؤں کے آنسو، حضورؐ، لایا ہوں
کئی ہزار دعاؤں کے ساتھ ہیں لشکر
خدا کے نام کا بھی واسطہ دیا مَیں نے
مگر غرور کی مسند سے وہ نہیں اترا
خدا کے بعد پکارا ہَے آپؐ کو آقاؐ!
حضورؐ، چشمِ تصوُّر کی تھام کر انگلی
درِ عطا پہ کھڑا ہوں مَیں ایک مدّت سے
حضورؐ، کشتیاں ٹوٹی ہوئی ہیں ساحل پر
حضورؐ، سر سے بلائیں ٹلیں حوادث کی
حضورؐ، خوفزدہ ہے فضا دریچوں کی
حضورؐ، خوفزدہ ہیں مکاں کی دیواریں
چراغِ شب ہوں بھروسہ نہیں ہَے سانسوں کا
حضورؐ، قَرض کا عفریت سامنے ہَے مرے
چھڑائیں میری بھی گردن کسی مہاجن سے
حضورؐ، ہچکیاں میری سلام کہتی ہیں
حضورؐ، سسکیاں میری سلام کہتی ہیں
حضورؐ، خوف کے عالم میں اشک ہیں میرے
حضورؐ، لفظ سلگتے ہیں میرے ہونٹوں پر
حصارِ جبرِ مسلسل میں سانس لیتا ہوں
حضورؐ، حرفِ تسلّی غلام زادے کو
مرے دکھوں کا مداوا حضورؐ، فرمائیں
کرم ریاضؔ پہ اِمشب ضرور فرمائیں