امیرِ قافلہ خود بھی غبارِ راہ میں گم ہے- دبستان نو (2016)
اذّیت ناک لمحوں کی گرفتِ ناروا میں ہوں
سجھائی کچھ نہیں دیتا، اندھیرا ہی اندھیرا ہَے
مری شاخِ تمنّا جل رہی ہَے آتشِ غم میں
مرے بچیّ کھُلی آب و ہوا میں سانس کب لیں گے
ہواؤں کو مقفّل کر دیا ہَے بندی خانوں میں
مرے آنگن میں محرومی کے بادل ہی برستے ہیں
چراغِ دیدہ و دل پر گری ہیں بجلیاں لاکھوں
امیرِ قافلہ خود بھی غبارِ راہ میں گم ہَے
مجھے آثار منزل کے دکھائی کس طرح دیں گے
مگر امید کی کرنیں ابھی بجھنے نہیں پائیں
مجھے کامِل یقیں ہَے صورتِ احوال بدلے گی
اذّیت ناک لمحوں سے رہائی مَیں بھی پاؤں گا
خدائے مہرباں ابرِ کرم کے سبز چھینٹوں سے
مری بنجر زمینوں پر بھی پھولوں کی ردا دے گا
فضا میں رنگ بکھریں گے دھنک کے لالہ زاروں سے
مدینے کے افق سے روشنی کے چاند ابھریں گے
گھٹا رحمت کی اٹھّے گی غبارِ راہِ طیبہ سے
ابھی معمور ہَے گلشن کسی کی التجاؤں سے
کرم کے پھول برسیں گے مدینے کی ہواؤں سے