تمام عکس ہیں مفرور آئنوں کے ابھی- دبستان نو (2016)
حصارِ فتنہ و شر میں مری بصیرت ہے
غبارِ شامِ غریباں کی دسترس میں ہوں
اداس رہتا ہَے آنگن میں زرد سا موسم
کواڑ بند ہوئے ہیں مرے دریچوں کے
ہوا بھی دستکیں دینے ادھر نہیں آتی
سجا رہا ہوں منڈیروں پہ اپنی آنکھوں کو
گداز و سوز کا موسم ہے کس خرابے میں
کہاں گیا مرے آنگن سے رتجگوں کا خمار
کہاں گئی مرے لوح و قلم کی حیرانی
کہاں گئی مرے دامن کی سبز رعنائی
کہاں چھپا ہَے ہواؤں کا بانکپن، جا کر
تمام عکس ہیں مفرور آئنوں کے ابھی
ردائے سبز پہ اترا ہے آگ کا بادل
ہوائے خُلدِ مدینہ کو بھیج دیں، آقاؐ
تمام پیڑ خموشی کی اوڑھ کر چادر
کئی دنوں سے گرفتِ شبِ سیہ میں ہیں
تڑپ رہا ہوں شبِ ہجر کی چٹانوں میں
کرم کی وادیٔ شاداب کے سویروں میں
ہوائے خُلدِ مدینہ تجھے خدا رکھّے
تری غریب نوازی کا شکریہ بے حد
ہوائے خُلدِ مدینہ ہَے التجا میری
شدید پیاس کے عالم میں حوضِ کوثر پر
مجھے بھی اُن کے غلاموں کے ساتھ لے جانا
مرے بھی اشک مدینے کی چاند راتوں میں
حضورِ حُسن سجانا بڑی محبت سے
نمازِ عشقِ محمدؐ کے بعد زیرِ لب
درود پڑھنا، رسالت مآبؐ پر پیہم
پھر اس کے بعد اجازت حضورؐ سے لے کر
سلام میرا بھی کہنا بڑی عقیدت سے
مجھے یقیں ہَے پیمبرؐ کے نقشِ پا کے طفیل
ورق پہ چاند ستاروں کی بارشیں ہوں گی
جوارِ گنبدِ خضرا کی رونقیں ہوں گی