ہر ورق شہرِ ثنا، شہرِ ادب، شہرِ قلم- دبستان نو (2016)
ہر ورق شہرِ ثنا، شہرِ ادب، شہرِ قلم
میرے حرفِ آرزو کے لب پہ ہے حرفِ درود
میری آنکھوں میں ہے طیبہ کی فضائے دلنشیں
میرے لفظوں میں چھُپی ہیں دھڑکنیں دل کی تمام
قافلے والوں کی گردِ راہ میں گم ہوں کہیں
سر زمینِ عشق سے لَوٹا نہیں میرا خیال
کسمپرسی کے ہے عالم میں مری کلکِ ادب
آنسوؤں سے تر ہے دامانِ طلب میرا حضورؐ
بال و پر سب کاٹ ڈالے ہیں مرے حالات نے
ڈس رہی ہیں ان گنت محرومیاں شام و سحر
آنسوؤں نے لکھ رکھی ہے میری رودادِ قلم
میں کسی نیلام گھر میں کس طرح جاتا، حضورؐ
ہر طرف بکھرا پڑا ہے میرے ماضی کا جلال
آپؐ کا طرزِ عمل ہے رہنما ہر موڑ پر
آپؐ کے نقشِ قدم سے میں نے لی ہے روشنی
آپؐ نے مقتل میں بھی جینا سکھایا ہے مجھے
خوابِ غفلت سے پسِ مژگاں جگایا ہے مجھے
میرے خالق، میرے رازق سے ملایا ہے مجھے
جنگلوں میں راستہ سیدھا دکھایا ہے مجھے
باغِ جنت کے نشیمن میں بلایا ہے مجھے
ظلمتِ شب کے اندھیروں سے چھڑایا ہے مجھے
گمرہی کی آگ سے آکر بچایا ہے مجھے
اک درندہ تھا مگر انساں بنایا ہے مجھے
لوٹ آئے ہیں مرے گھر میں اندھیروں کے ہجوم
ایک مٹی کا دیا ہے وہ بھی ہے ٹوٹا ہوا
ارتقاء کی سیڑھیاں دشمن اٹھا کر لے گئے
ہیں متاعِ جاں اندھیروں میں تلاشوں کس طرح
آپؐ کے در سے نگاہیں کس طرح اٹھیں مری
ہر ورق پر آپؐ کا اسمِ گرامی ہے رقم
ہر ورق شہر ثنا، شہرِ ادب، شہرِ قلم