آتے ہیں بہت یاد رفیقانِ مدینہ- غزل کاسہ بکف (2013)
ہے عرشِ معلی پہ قلمدانِ مدینہ
کیا مجھ سے بیاں ہو گی کبھی شانِ مدینہ
قاصد مرے آقاؐ کا بھی آئے گا یقینا
رکھا ہے اِدھر باندھ کے سامانِ مدینہ
ہر عہد ہے خورشیدِ نبوت سے منّور
ہر شعر میں ہے دانش و برہانِ مدینہ
رکھتے ہیں مجھے سایۂ رحمت میں ہمیشہ
آقائے مکرمؐ، مرے سلطانِؐ مدینہ
طیبہ کا سفر اور وہ انوار کی رم جھم
آتے ہیں بہت یاد رفیقانِ مدینہ
کیا اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں ہے؟
اک ذرۂ ناچیز ہو مہمانِ مدینہ
ہر نعت کا ہر لفظ ہے خوشبوئوں کا پیکر
ہے پیشِ نظر میرے، گلستانِ مدینہ
خوشبو کے چراغوں کی قطاریں ہیں بدن پر
برسی ہے مری خاک پہ بارانِ مدینہ
جن کو کبھی رخصت کی اجازت نہیں ملتی
خوش بخت وہ ہوتے ہیں اسیرانِ مدینہ
سائل ہوں ازل سے، درِ سرکارؐ کا میَں بھی
پہچان مجھے لیں گے گدایانِ مدینہ
ہر بستی کے لوگوں کو ملے امن کا مژدہ
ہر بستی کے سر پر رہے دامانِ مدینہ
پلکوں پہ بٹھا لوں کہ انہیں دل میں چھپا لوں
ملتے ہیں مقدر سے عزیزانِ مدینہ
اتنا مجھے معلوم ہے اے داورِ محشر
کہتے تھے مجھے لوگ سخندانِ مدینہ
صد شکر ریاضؔ اب کے برس جاگی ہے قسمت
غمخوار ہمارے بھی ہیں خاصانِ مدینہ
*
رہتے ہیں مدینے میں محبانِ مدینہ
ایماں کی کسوٹی بھی ہے میزانِ مدینہ
عمریں بھی غلامی میں گذر جاتی ہیں اکثر
حاصل نہیں ہوتا یونہی عرفانِ مدینہ
تشکیک کی مٹی کو کئی بار اڑا لو
میرے بھی نگہباں ہیں نگہبانِ مدینہ
سرکارؐ کی چوکھٹ ہے مساوات کا مرکز
ہر عدل کی بنیاد ہے ایوانِ مدینہ
قدرت کا اٹل فیصلہ ہے روزِ ازل سے
دوزخ کا بنیں رزق حریفانِ مدینہ
ابو! ہمیں سرکارؐ کے قدموں میں ہے رہنا
بننا ہے ابھی سے ہمیں دربانِ مدینہ
رمضان میں تقسیم جو کرتے ہیں کھجوریں
ننھے سے فرشتے ہیں وہ طفلانِ مدینہ
اب ٹوٹ کے، سجدے میں قلم گرتا ہے میرا
کونین کی بھی جان ہیں وہ جانِ مدینہ
دوری نے حضوری کا ہے کب راستہ روکا
رکھا ہوا سینے میں ہے دیوانِ مدینہ
ان کی ہے سلامی درِ اقدس پہ گزاری
رکھتے ہیں در و بام بھی ارمانِ مدینہ
ہر ذرے میں رکھ آیا ہوں میں چشمِ تمنا
اوجھل نہ ہو نظروں سے دبستانِ مدینہ
سرکارؐ، دعا مانگی ہے یہ اپنے خدا سے
محشر میں بھی اک ساتھ ہوں یارانِ مدینہ
یا رب! ہو سفرنامہ اسی سال مکمل
کیا خوب ہے روداد کا عنوانِ مدینہ
کشکول میں سرمایۂ مدحت ہے ازل سے
کیا میرا بگاڑیں گے رقیبانِ مدینہ
لکھتے ہیں، ریاضؔ، آپؐ کی گلیوں کے قصیدے
ہم اہلِ قلم تو ہیں سفیرانِ مدینہ