خیالِ خلدِ مدینہ بسا کے بیٹھا ہوں- غزل کاسہ بکف (2013)
حروفِ نعت میں آنکھیں سجا کے بیٹھا ہوں
ورق ورق پہ گلستاں کھلا کے بیٹھا ہوں
عطا زمیں کے خزانے اُنہیںؐ خدا نے کئے
درِ حضورؐ پہ دامن بچھا کے بیٹھا ہوں
افق افق پہ اجالا فقط اُنہیؐ کا ہے
اِسی لئے درِ آقاؐ پہ آ کے بیٹھا ہوں
دعا کے سبز پرندوں کی سبز آنکھوں میں
شبیہہِ گنبدِ خضرا بنا کے بیٹھا ہوں
حضورؐ، خوفزدہ ہے گلی کا ہر بچّہ
چراغ، اس لئے گھر میں جلا کے بیٹھا ہوں
فصیلِ شہرِ مقفل کے در نہیں کھلتے
میں اپنے ہاتھ، نبی جیؐ، کٹا کے بیٹھا ہوں
حضورؐ، جھوٹے تفاخر کے مردہ خانے میں
ہنروری کے اثاثے گنوا کے بیٹھا ہوں
ہر ایک موج نے چہرے پہ خودکشی لکھ لی
ابھی، حضورؐ، میں لنگر اٹھا کے بیٹھا ہوں
بڑے خلوص سے لوح و قلم کے دامن میں
میں اپنے اشک، ازل سے، چھپا کے بیٹھا ہوں
ابھی مَیں چشمِ تحیّر کے رتجگوں میں ہوں
ابھی ابھی مَیں ستارے لٹا کے بیٹھا ہوں
حضورؐ، عرض گذارے گی حاضری کے وقت
صبا کو اپنی کہانی سنا کے بیٹھا ہوں
کسے خبر کہ گلستانِ آرزو میں، ریاضؔ
خیالِ خلدِ مدینہ بسا کے بیٹھا ہوں