سحابِ آرزو کے ساتھ نکلا ہوں مدینے میں- تحدیث نعمت (2015)
سحابِ آرزو کے ساتھ نکلا ہوں مدینے میں
مَیں تصویرِ ادب بن بن کے برسا ہوں مدینے میں
مَیں زر کی دھوپ چھاؤں میں رہا ہوں عمر بھر، آقاؐ
تہی دامن، سرِ بازار تڑپا ہوں مدینے میں
مجھے دیوانہ کہہ کر لوگ گلیوں میں پکاریں گے
مَیں زنجیرِ غلامی ساتھ لایا ہوں مدینے میں
مجھے اوقات اپنی یاد رہتی ہَے سرِ محفل
ندامت کا میں آنسو بن کے رہتا ہوں مدینے میں
کسی گھر کے ہو دروازے پہ میرے نام کی تختی
گھروندے ریت کے لاکھوں بناتا ہوں مدینے میں
خطائیں مستقل لپٹی ہوئی ہیں میرے دامن سے
در و دیوار سے لگ لگ کے روتا ہوں مدینے میں
مجھے آداب آتے ہیں مدینے میں رہایش کے
مَیں ہر زائر کے قدموں سے لپٹتا ہوں مدینے میں
خدا کا شکر واجب ہَے مری اس خوش نصیبی پر
تخیل میں مَیں ہر لمحہ مہکتا ہوں مدینے میں
کروڑوں عکس ہیں میری غلامی کے، مِرے آقاؐ
ہزاروں آئنے حیرت کے رکھتا ہوں مدینے میں
سمیٹے یا رسول اللہ مجھے بھی آپؐ کی رحمت
ریاضِ بے نوا ہوں اور بکھرا ہوں مدینے میں