حمدِ ربِ کائنات: ہر قدم پر دستگیری کون فرماتا رہا- برستی آنکهو خیال رکهنا (2018)
جو بشر روزِ ازل سے ٹھوکریں کھاتا رہا
ہر قدم پر اُس کو رستہ کون دکھلاتا رہا
جب خس و خاشاک میں الجھی ہوئی تھی زندگی
آسماں سے کون مجھ پر پھول برساتا رہا
کون گرہیں کھول دیتا ہے مرے اوہام کی
کون میری الجھنوں کو خود ہی سلجھاتا رہا
بند کر کے کھڑکیاں شہرِ جہالت کی تمام
علم کے آداب ہر بندے کو سکھلاتا رہا
دشت و صحرا میں جہاں پانی کا اک قطرہ نہیں
آبجو آبِ خنک کی کون بن جاتا رہا
ہچکیاں جب آخری لینے لگی میری زمیں
حوصلہ اس کا بڑھانے کے لئے آتا رہا
کس کے انوارِ مسلسل کا رہا جاری نزول
ہر قبیلہ اپنی منزل کا پتہ پاتا رہا
تشنہ ہونٹوں پر قضا کے ہاتھ جب پڑنے لگے
پانیوں کے کون مشکیزے اٹھا لاتا رہا
کون رکھتا ہے گذر گہ پر چراغوں کی قطار
کون شامِ کرب میں اہداف ٹھہراتا رہا
جب بھی حرفِ التجا بن کر پکارا ہے اُسے
رحمتوں کا لے کے لشکر آپ آ جاتا رہا
برف زارِ زندگی میں برف تھا میرا وجود
منجمند میرے لہو کو کون گرماتا رہا
سوچتا رہتا ہوں میں اِن آخری ایام میں
ہر قدم پر دستگیری کون فرماتا رہا
وہ عطا کرتا رہا مجھ کو ستاروں کے ہجوم
میں غبارِ شامِ تنہائی میں گھبراتا رہا
رات جب ڈسنے لگی روح و بدن کو ایک ساتھ
روشنی ہی روشنی وہ آپ بن جاتا رہا
کون ہو سکتا ہے وہ ربِ محمدؐ کے سوا
مشکلیں آسان کر کے میری چھپ جاتا رہا
وہ ریاضِؔ نغمہ گر کا مالک و مختار ہے
وہ مرے ہر خواب کی تعبیر بن جاتا رہا