ترتیب- برستی آنکهو خیال رکهنا (2018)

اظہاریہ

فردوسِ مدحت کی منزلِ ادب کا مکیں (شیخ عبد العزیز دباغ)

حمدِ ربِّ کائنات

ہر قدم پر دستگیری کون فرماتا رہا

حرفِ تشکر

مرے گھر کو ثنا گوئی کا دفتر کر دیا اُس نے

نوائے آخرِ شب

روئے زمیں پہ عدل کے سب فیصلوں کی خیر

التجائے امت

خاکِ شفا کی چادرِ رحمت کا ہے سوال

دعائے سحر

درودِ مصطفیٰؐ کو توُ نصابِ انس و جاں کر دے

تمنائے حضوری

مدینے کی فضا میں آخری دن ہوں بسر میرے

آرزوئے قلم

مرے شہروں کے جنگل میں کوئی تو ضابطہ برسے

التجائے شاعر

مرے شہرِ قلم کو خوشبوئے غارِ حرا لا دے
قبولیّت کا حاصل ہو شرف میری دعاؤں کو

حمد و نعت

جا، مدینے سے اٹھا لا روشنی کا پیرہن
شفاعت کے گلِ تازہ خدایا!

سہ نعتیہ

سانسیں لیتے ہیں درِ آقاؐ پہ رشحاتِ قلم

دو نعتیہ

ترجمانِ عرشِ اعظمؐ کے دبستانوں میں ہوں
چراغِ آرزو طیبہ کی مٹی سے بنا ہو گا
میں ہمیشہ سے مدینے کے طرف داروں میں ہوں

ثنائے خیرالوریٰ

آہنی دیوار میں افکار کا روزن کھُلا
اے خدائے قلم! ان کے صدقے میں ہوں، لفظ کلکِ ادب کے زرِ معتبر
بڑی خوش بخت ہے پھولوں بھری میری صدی لکھنا
چلچلاتی ہوئی دھوپ میں یا نبیؐ، نقشِ پا کا خنک سائباں مل گیا
عشقِ نبیؐ کے بال ہما میں ہوں معتکف
روشنی کا منتظر ہے آج کا انسان بھی
کتابِ چشم تر ہم نے مدینے میں کہیں رکھ دی
مرے اندے کے انساں نے چلن بدلا مدینے میں
کب ہوا میرا سخن حرفِِ اذاں سے باہر
شہر قلم ہے شہرِ زلیخا بنا ہوا
ساحلِ امید پر ہے نا خدا کا سہ بکف
درودوں سے منور ہے فضائے آشیاں میری
قبولیت کے دیے لے کے ہر دعا نکلے
خبر کرنا میری سرکار کو میری عدالت کی
بادِ شفا کبھی میرے آنگن سے بھی گذر
خدا کی رحمتیں شامل ہیں بارانِ مدینہ میں
کب سے فریادی ہے زخمی فاختاؤں کا ہجوم
کروں گا روزِ محشر کس طرح میں سامنا اُن ؐ کا
بارشیں لکھیں مرے حرفِ طلب کا حاشیہ
دیارِ طیبہ میں ہمنشینو! آہستہ بولو، بڑے ادب سے
خدایا! ہر جزیرے پر خنک آب و ہوا برسے
زرتاب ساعتوں کا ہے میلہ لگا ہوا
لے کے آیا ہوں درِ اقدس پہ زخموں کے چراغ
صبا شہرِ مدینہ کی حسیں گلیوں کی جوگن ہے
نمازِ عشق سے پہلے قلم کا ہے وضو دلکش
رہِ طیبہ میں کب سے ہے درودی کارواں رقصاں
کبھی اخبار طیبہ ساتھ لائے آپؐ کا قاصد
مجھے مدحت نگاری کے کئی محراب و منبر دے
تحلیل فضا میں ہو گا دھواں، اﷲ کرم فرمائے گا
قلم کو چوم لیتا تھا ریاض اپنے لڑکپن میں
دھوپ آنگن میں اتر آئی ہے سرما کی تمام
مدینے میں کہاں اٹھتی ہے سجدسے نظر میری
ڈھونڈتے ہو افق پر مگر ہمسفر! روشنی ہے خیابان اصحابؓ میں
مدینے سے اٹھا لائیں چراغِ نقش پا آنکھیں
چشم پرنم سے کبھی چھلکے مدینے کی ہوا
پھول برساتا رہے میری زمیں پر آسماں
خلدِ طیبہ کے ملے ہیں رتجگے، آہستہ چل
روشنی کی انتہا ہے سیرتِ خیبر البشرؐ
سرحدِ عشق پیمبرؐ کا نہیں کوئی وجود
ہم داستان کس کو سنائیں کرم، حضورؐ
قصرِ انا کی جھوٹی اناؤں کا انہدام
میز پر کلکِ ثنا پھول سجانے نکلے
لب پر حروفِ بابِ غلامی سجے رہیں
اسلوبِ ثنا میرا سب سے ہے جدا آقاؐ
کرم کا ابر مری چھاگلوں پہ برسائیے
آپؐ کے در پر عطائیں ہی عطائیں ہیں، حضورؐ
کروڑوں دے ہمیں شبھ کامناؤں کے نئے موسم
یدِ بیضا لئے نعتِ پیغمبرؐ کا گریباں ہے
ازل سے پھول برساتے ہوئے بادِ صبا، آجا
مرے سجودمسلسل میں روحِ دیں نہ رہی
پرندے اڑ رہے ہیں حشر میں اُنؐ کی شفاعت کے
احرامِ ثنا باندھے اُس دیس میں جانا ہے
سرِ محشر بھی مانندِ حروفِ التجا آؤں
ازل سے خلدِ مدینہ کی آبجو میں ہوں
سچ تو یہ ہے عید کے تہوار میں رہتے ہیں ہم
ثنائے مصطفیٰؐکے واسطے ارض و سما لکھ دے
ہوائیں کہہ رہی ہیں آج بھی نعتِ نبی ؐ ہو گی
ستارا آسمانوں پر رہے حرفِ مکرر کا
وہی تشنہ لبی ہے عصرِ نو کی کربلاؤں میں
زندگی بھر ثنا کے سفر میں ساتھ بادِ بہاری رہے گی
خدا والے نصابِ ساقیٔ کوثرؐ میں کھو جائیں
انؐ کی نوازشات کا کیا کیجئے حساب
ادب کی اوڑھنی لے کر ہوائے فکر و فن ٹھہرے
حرفِ ثنا، چراغ، قلم زر نگار ہوں
مری مدحت نگاری کا قلم دستِ صبا میں تھا
بہت کچھ سوچ کر شہرپیمبرؐ میں قدم رکھنا
طلب کے شامیانوں میں زرِ صلِّ علیٰ اترے
یہ شبِ میلاد ہے سرکار ؐکے نے کی شب
یا رب! بخیر ہو مرا انجامِ زندگی