دونوں جہاں کے قبلہ و کعبہ تمہی تو ہو- زر معتبر (1995)
دونوں جہاں کے قبلہ و کعبہ تمہی تو ہو
ہرعہد، ہر صدی کا تقاضا تمہی تو ہو
بے مثل وبے نظیر ہو اے شاہِؐ دوسرا
نبیوں کے تاجدار بھی تنہا تمہی تو ہو
جس سے مہک رہا ہے جہانِ دل و نظر
باغِ ازل کے وہ گلِ تازہ تمہی تو ہو
ہر لفظ میں ہے کِس کے محاسن کا تذکرہ
قرآں کی آیتوں کا خلاصہ تمہی تو ہو
سب بے جواز ہیں مرے سینے کی دھڑکنیں
دراصل زندگی کا حوالہ تمہی تو ہو
کب سے محیط ہے مِرے دِن پر بھی تیرگی
شہرِ غبارِ شب کا سویرا تمہی تو ہو
میرے نصابِ درد کا عنوان بھی کوئی
عقل و شعور و فن کا صحیفہ تمہی تو ہو
پھر کیوں ہراس پھیل گیا ہے سرِ بدن
ہر شامِ زندگی کا اُجالا تمہی تو ہو
گردن جھُکی ہُوئی ہے گناہوں کے بوجھ سے
جود و کرم کا سرمدی دریا تمہی تو ہو
اب بُجھ چکی ہَے چہروں پہ قندیلِ آرزو
پرسانِ حال ملّتِ بیضا تمہی تو ہو
آقاؐ ریاضؔ آج بھی غم سے نڈھال ہَے
اِس بے نوا کے ملجا و ماویٰ تمہی تو ہو