حمد و نعت: جا، مدینے سے اٹھا لا روشنی کا پیرہن- برستی آنکهو خیال رکهنا (2018)
اشکِ شامِ التجا ہے روشنی کا پیرہن
میرا کُل سرمایہ ہے حُبِّ نبیؐ کا پیرہن
خلدِ طیبہ کا ہے ہر موسم خنک آبِ حیات
خاکِ طیبہ ہے بہارِ دائمی کا پیرہن
اُنؐ کے نقشِ پا سے مانگے بھیک خورشیدِ سحر
ابر ہے شہرِ نبیؐ کی ہر گلی کا پیرہن
کھول رکھی ہے دھنک نے شہرِ طیبہ میں دکاں
کہکشاں در کہکشاں ہے دل کشی کا پیرہن
اِس طرح محبوبِؐ ربِّ آسماں کا نور ہے
چاند ہے جیسے فلک پر چاندنی کا پیرہن
سبز شاخوں پر کھلے لاکھوں درودوں کے گلاب
خوشبوئے اسمِ نبیؐ ہے ہر کلی کا پیرہن
آپؐ کی نسبت سے ہے اولادِ آدم معتبر
آپؐ کے قدموں کا دھوون ہر کسی کا پیرہن
گفتگو سرکارؐ کی حسنِ سماعت کا نصیب
خود ہے اسمِ مصطفیٰؐ، ہر نغمگی کا پیرہن
عدل اور قانون اُنؐ کی مملکت کی آبرو
ہے قلمدانِ عدالت منصفی کا پیرہن
آسمانوں سے عطاؤں کی ہے بارش کا نزول
چشمۂ آبِ کرم ہے تشنگی کا پیرہن
دامنِ دیوارِ طیبہ کا ملے سایہ حضورؐ
خِلعتِ لطف و عطا ہو زندگی کا پیرہن
دھند میں گم ہیں کہیں شہرِ قلم کی رونقیں
نور و نکہت سے بنے حرفِ جلی کا پیرہن
ہر افق تاریک ہوتا جا رہا ہے اِن دنوں
جا، مدینے سے اٹھا لا روشنی کا پیرہن
آنسوؤں سے لکھ رہا ہوں کب سے توصیفِ حضورؐ
لب بہ لب، میرے خدا ہے، خامشی کا پیرہن
خوشبوؤں کو حکم دے، بڑھ کر قلم کو تھام لیں
فکرِ انسانی کو دے تو آگہی کا پیرہن
بارشوں کے خوف میں ہے مبتلا شہرِ سخن
کاغذی ہے التجائے کاغذی کا پیرہن
اطلس و کمخواب کی خِلعت میں ہے لپٹا ہوا
کتنا دل آویز ہے نامہ بری کا پیرہن
روشنی کے پھول بانٹے شاعرِ خیرالبشرؐ
دے قلم کو بھی چراغِ سرمدی کا پیرہن
التجا ہے، اے خدا! میرا ہو نذرانہ قبول
چند آنسو ہیں درودِ آخری کا پیرہن
ہر کسی انسان کو حاصل ہوں بنیادی حقوق
ہمسفر! خوفِ خدا ہے بندگی کا پیرہن
جشنِ میلاد النبی کے کیا ہی کہنے ہیں ریاضؔ
آسماں ہے ذرّے ذرّے کی خوشی کا پیرہن