چلچلاتی ہوئی دھوپ میں یا نبیؐ، نقشِ پا کا خنک سائباں مل گیا- برستی آنکهو خیال رکهنا (2018)
میں مدینے کی گلیوں میں گم کیا ہوا، علم و فن کا مجھے آسماں
مل گیا
گنگ میرے زبان و قلم تھے مگر مدحتِ مصطفیؐ کا جہاں مل گیا
مرغزارِ قلم کے مضافات میں لفظ ملتے نہ تھے پھول کھلتے نہ
تھے
خلدِ طیبہ کی ٹھنڈی ہوا چل پڑی، تشنہ ہونٹوں کو آبِ رواں مل گیا
ایک مفلس تھا میں، ایک نادار تھا، اپنے رستے کی خود ایک
دیوار تھا
اُنؐ کی توصیف کی سلطنت میں مجھے، تختِ سلطانِ نطق و بیاں مل گیا
روشنی مل گئی، رِم جھمیں مل گئیں، ودایٔ عشق کی خوشبوئیں
مل گئیں
خطّۂ علم میں، قریۂ نور میں، سب کا آقاؐ، سخیؐ، مہرباںؐ مل گیا
میں کہاں اور کہاں اُنؐ کا شہرِ ثنا، میری اوقات کیا، میری
پہچان کیا
نعت گوئی کے صدقے میں اے ہمنشیں! مجھ کو بھی منصبِ زرفشاں مل گیا
میری آنکھیں جھکی کی جھکی رہ گئیں، میرے آنسو رکے کے رکے
رہ گئے
شہرِ مکہ کی گلیوں کے انوار میں، سیّدہ آمنہؓ کا مکاں مل گیا
آرزوئیں مری رقص کرنے لگیں، جھولیاں خاکِ انور سے بھرنے
لگیں
مجھ کو سب کچھ خدا نے عطا کر دیا، آپؐ کا، سیّدی! آستاں مل گیا
سچ ہی لکھتا رہوں سچ کی دیوار پر، سچ ہی کہتا رہوں سچ کے
اخبار میں
فتنہ و شر کی شامِ المناک میں، ایک شاعر کو حکمِ اذاں مل گیا
مضطرب ساری امواج تھیں ہمسفر! پانیوں میں بنا دی گئی رہگذر
جب مدینے کی جانب رواں تھی ہوا، میری کشتی کو بھی بادباں مل گیا
خیمۂ عافیت میں رہا عمر بھر، نام وردِ زباں اُنؐ کا تھا
روز و شب
حُبِّ سرکارؐ کا، عشقِ دلدار کا، اک سمندر مجھے بیکراں مل گیا
یہ زمیں چل پڑی، آسماں چل پڑا، ہاتھ تھامے مرا کہکشاں چل
پڑی
جانبِ خلدِ طیبہ روانہ ہوا، دشت میں موسمِ گلفشاں مل گیا
میری نسلیں بھی ممنون ہیں آپؐ کی، گھر میں اتری ہے طیبہ
نگر کی خوشی
چلچلاتی ہوئی دھوپ میں یا نبیؐ! نقشِ پا کا خنک سائباں مل گیا
یہ قلم ہمنوا شامِ مدحت کا ہے، شعر جھونکا ہوائے محبت کا
ہے
شکر کیوں نہ کروں ربِّ غفّار کا، ہر قدم پر مجھے ہمزباں مل گیا
اُنؐ کی دہلیز کو چھوڑتا کس طرح، بعد مرنے کے بھی یہ تو
ممکن نہ تھا
میری قسمت ریاضؔ اوج پر ہی رہی، اُن درختوں میں اک آشیاں مل گیا
توُ، ریاض،ؔ اُنؐ کے قدموں میں رکھ دے قلم، خود بخود تیری
تاریخ ہو گی رقم
شکر واجب خدائے قلم کا ہے یہ، مرسلِ حامیٔ بیکساں مل گیا