کب سے فریادی ہے زخمی فاختاؤں کا ہجوم- برستی آنکهو خیال رکهنا (2018)
ملتزم پر سر بسجدہ ہے دعاؤں کا ہجوم
سسکیوں اور ہچکیوں اور التجاؤں کا ہجوم
شامِ طیبہ کی فضائے نور میں ہے ہر طرف
رحمتِ حق کی مقدّس اپسراؤں کا ہجوم
آخرِ شب، غور سے سن، وسعتِ افلاک میں
پڑھ رہا ہے نعتِ مرسلؐ کہکشاؤں کا ہجوم
حشر تک کھلتے رہیں گے پھول کشتِ عِلم میں
دامنِ لوح و قلم میں ہے گھٹاؤں کا ہجوم
استغاثہ اس کے اشکوں میں رقم ہے یارسولؐ!
آپؐ کے در پر پڑا ہے بے نواؤں کا ہجوم
جاں نثاروں کی غلامی کا دبستاں ہو قبول
ارضِ پاکستاں سے لایا ہوں وفاؤں کا ہجوم
آنگنوں میں چاندنی پھیلے کرم کی، یانبیؐ
درپئے آزار ہے کالی بلاؤں کا ہجوم
کب سے ہیں میرے تعاقب میں منافق ساعتیں
عجز کے پیراہنوں میں ہے اناؤں کا ہجوم
اہلِ باطل کے روّیوں پر نہ دل چھوٹا کرو
ہمسفر رہتا ہے آقاؐ کی عطاؤں کا ہجوم
ایک بھی انسان بستی میں نہیں رہتا، حضورؐ
قریے قریے میں ہے لیکن پارساؤں کا ہجوم
کشتیاں اپنی ڈبو کر ساحلِ امید پر
دندناتا پھر رہا ہے ناخداؤں کا ہجوم
امنِ عالم کی کہانی خون سے لکھّی گئی
کب سے فریادی ہے زخمی فاختاؤں کا ہجوم
نعت سن کر آج بھی محفل میں ہے محوِ درود
مرحبا کہتی ہوئی دلکش فضاؤں کا ہجوم
سانس پھر رکنے لگی ہے تنگ گلیوں میں ریاضؔ
ساتھ لے آنا مدینے سے ہواؤں کا ہجوم